سلامتی

ایران پر پاکستانی باغی گروپوں کو پناہ دینا بند کرنے کے لیے دباؤ

از زرک خان

پاکستانی پولیس 8 اگست کو کراچی میں شعبۂ انسدادِ دہشت گردی سندھ کے دفتر میں جمع ہے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

پاکستانی پولیس 8 اگست کو کراچی میں شعبۂ انسدادِ دہشت گردی سندھ کے دفتر میں جمع ہے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

اسلام آباد -- سرحد پار حملوں میں اضافے کے درمیان، اسلام آباد نے ایک بار پھر تہران پر ایرانی سرزمین پر پناہ لینے والے پاکستانی باغی گروہوں کی حمایت بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے.

پاکستانی حکام نے بتایا کہ دونوں ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں کی حالیہ ملاقاتوں کے دوران یہ مسئلہ مرکزی حیثیت اختیار کر گیا۔

3 اگست کو اسلام آباد کے دورے کے دوران، ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے پاکستانی ہم منصب، بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی۔

دو ہفتے قبل، پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے تہران کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے ایرانی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف میجر جنرل محمد حسین باقری سمیت اعلیٰ ایرانی حکام سے ملاقات کی تھی۔

پاکستانی فوج نے ملاقات کے بعد 16 جولائی کو ایک بیان میں کہا کہ منیر اور باقری نے "دہشت گردی کے خطے کے لیے بالعموم اور دونوں ممالک کے لیے بالخصوص ایک مشترکہ خطرہ ہونے پر اتفاق کیا"۔

بیان میں کہا گیا، "انہوں نے خفیہ اطلاعات کے تبادلے اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے خلاف مؤثر کارروائیوں کے ذریعے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کا عزم کیا، اور سیکیورٹی کے شعبے میں تعاون کو بڑھانے کے لیے راستے تلاش کیے"۔

اپنے دو روزہ دورے کے دوران منیر نے امیر عبداللہیان اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے علاقائی امن و استحکام کے لیے پاک ایران تعلقات کی اہمیت پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔

سرحد پار سے حملوں میں اضافہ

دوستی کے مظاہرے کے باوجود، سیکیورٹی اور وزارتِ خارجہ کے عہدیداروں نے جو ملاقات سے واقف تھے، کہا کہ حال ہی میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔

یہ بگاڑ خاص طور پر صوبہ بلوچستان میں پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں اور سرحدی چوکیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں سے پیدا ہوا ہے جو ایران میں پناہ حاصل کرنے والے پاکستانی عسکریت پسندوں کی طرف سے ترتیب دیے گئے تھے۔

پاکستانی فوج نے یکم جون کو فائرنگ کے تبادلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسندوں نے ایرانی سرحد کے ساتھ سنگوان کے علاقے میں ایک پاکستانی حفاظتی چوکی پر حملہ کیا، جس میں دو فوجی مارے گئے۔

پاکستانی فوج نے یکم اپریل کو ایک بیان میں کہا کہ ایران کے ساتھ سرحد کے قریب بلوچستان کے ضلع کیچ میں اس کے چار فوجیوں کو "دہشت گردوں کے ایک گروہ" نے ہلاک کر دیا ہے۔

فوج نے کہا کہ اس نے مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی امید میں ایران کو حملے کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے۔

جنوری میں کیچ میں چار پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اسی طرح کے حملے کے بعد، پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایران سے اپنی سرزمین کو "سرحد پار حملوں" کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کا مطالبہ کیا.

حملے ایرانی سرزمین سے کیے گئے

سرحد پار پُرتشدد کارروائیوں میں اضافے کے علاوہ، پاکستانی باغی گروہوں -- خصوصاً بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، جن کی قیادت ایران کے اندر چھپی ہوئی ہے -- نے اپنے حملوں میں اضافہ کیا ہے۔

انہوں نے صوبہ بلوچستان اور بندرگاہی شہر کراچی کو نشانہ بنایا ہے۔

جیمزٹاون فاؤنڈیشن نے مارچ 2022 کی ایک رپورٹ میں کہا، "بی ایل اے اور بی ایل ایف ایران کی جانب سے ان کے ساتھ نرم رویئے سے مستفید ہوتے ہیں"۔

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے "انہیں اور دیگر بلوچ باغی گروہوں کو تحفظ اور پناہ دی ہوئی ہے"۔

اس نے مزید کہا کہ پاکستانی گروہوں نے اس تحفظ کو تہران مخالف ایرانی عسکریت پسند گروہ جیش العدل پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، جو ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں بلوچ نسلی برادری پر مبینہ جبر کے لیے تہران کا مخالف ہے۔

منگل (8 اگست) کو، بی ایل ایف نے ایک حملے کا دعویٰ کیا جس سے ایک دن پہلے کراچی کے لیاری محلے میں ایک نیم فوجی پاکستانی رینجر ہلاک ہوا تھا۔

جون میں، بی ایل اے نے ایک خاتون خود کش بمبار کو استعمال کرتے ہوئے خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی جس نے بلوچستان کے ضلع تربت میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔

مارچ میں، بلوچستان میں شعبۂ انسدادِ دہشت گردی کے اہلکاروں نے کہا کہ افسران نے بی ایل ایف سے وابستہ ایک ممکنہ خاتون خودکش بمبار کو گرفتار کیا۔

اسلام آباد میں مقیم سیکیورٹی تجزیہ کار ضمیر قریشی نے کہا، "تہران اپنے آپ کو پاکستان کے اتحادی کے طور پر پیش کرتا ہے، لیکن اس کے اپنے علاقے میں بی ایل اے اور بی ایل ایف کو پناہ دینے کے اقدامات پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچا رہے ہیں"۔

قریشی نے یاد دلایا کہ تہران کے اپنے حالیہ دورے میں، پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف نے واضح طور پر ایرانی حکومت سے کہا تھا کہ وہ پاکستانی عسکریت پسند گروہوں کو ایران میں پناہ گاہیں بنانے سے روکے، اور سرحدی حفاظتی اقدامات کو بڑھائے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500