معاشرہ

خیبرپختونخواہ نے دہشت گردوں کی طرف سے ہلاک کیے جانے والے سیاسی راہنماؤں کی یادگاریں بنائیں

اشفاق یوسف زئی

پشاور میں ایک ڈاکٹر، جولائی میں ایک مریض کو انجکشن لگا رہا ہے۔ [کے پی شعبہ صحت]

پشاور میں ایک ڈاکٹر، جولائی میں ایک مریض کو انجکشن لگا رہا ہے۔ [کے پی شعبہ صحت]

پشاور -- خیبرپختونخواہ (کے پی) کی حکومت ان سیاسی راہنماؤں کو یاد کر رہی ہے جودہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہلاک ہو گئے تھے اور امن کے لیے ان کی جدوجہد کو تسلیم کرتے ہوئے صحتِ عامہ کے جدید بنائے جانے والے مراکز کا نام ان کے نام پر رکھ رہی ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے طبی عالم ڈاکٹر جاوید خان نے کہا کہ نئے ہسپتال رہائشیوں کو تشخیص اور علاج کے لیے سہولیات مہیا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان راہنماؤں کو خراجِ عقیدت بھی پیش کرتے ہیں جنہوں نے کبھی بھی عسکریت پسندوں کے آگے سر نہیں جھکایا۔

پشاور کے ڈاکٹر فیاض خان نے کہا کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے ہلاک کیے جانے والوں کے نام پر ہسپتالوں کا نام رکھنے سے یہ پیغام واضح طور پر بھیجا جاتا ہے کہ حکومت ان افراد کی قربانیوں کو تسلیم کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اس کا مطلب ہے کہ ان شہدا کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور اداروں کو مزید سرمایہ ملے گا"۔

انہوں نے کہا کہ "یہ دو شاخہ حکمتِ عملی ہے: اپنے شہدا کی قربانیوں کو یاد رکھنا اور اس کے ساتھ ہی مریضوں کی دیکھ بھال کو بہتر بنانا"۔

گزشتہ دسمبر میں، 200 بستروں پر مشتمل فرید خان شہید ہسپتال نے ہنگو ڈسٹرکٹ میں کام کرنا شروع کیا تھا جہاں کے رہائشیوں نے طویل عرصے سے ایسی سہولت کا مطالبہ کیا تھا۔

اس ہسپتال کا نام فرید خان کے نام پر رکھا گیا ہے جن کا انتخاب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے کے پی صوبائی اسمبلی کے لیے کیا تھا، اور عسکریت پسندوں نے جون 2013 میں انہیں ان کے آبائی ضلع، ہنگو میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

قبل ازیں، جنوری 2013 میں، اس وقت کے، کے پی کے وزیرِ اعلی امیر حیدر خان ہوتی نے پشاور میں 200 بستروں کے بچوں کے ہسپتال کی تعمیر کا اعلان کیا تھا جس کا نام بشیر احمد بلور کے نام پر رکھا جائے گا، وہ دسمبر 2012 میں پشاور میں ایک انتخابی ریلی کے دوران طالبان کی طرف سے کیے جانے والے خودکش دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

یہ ہسپتال جس کی تعمیر پر 2۔2 بلین روپوں (13۔7 ملین ڈالر) کا خرچہ آیا ہے، حیات آباد کے قصبے میں ہے اور توقع ہے کہ یہ اس سال دسمبر میں کام کرنا شروع کر دے گا۔ تکمیل کے بعد، یہ ضلع کی سطح پر بچوں کو علاج کی سہولیات فراہم کرنا شروع کرے گا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ماہر امراض بچگان ڈاکٹر غلام اکبر نے کہا کہ "یہ ان بچوں کے لیے ایک نعمت ہے جن کے پاس خصوصی سہولت کی کمی تھی۔ علاج کے علاوہ، یہ ہسپتال ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کی تربیت کے لیے استعمال ہو گا"۔

انہوں نے کہا کہ یہ عسکریت پسندوں کے لیے مناسب جواب ہے کہ ایسے طبی ادارے قائم کیے جائیں جن کا نام متاثرین کے نام پر رکھا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "عسکریت پسند بچوں کی صحت کو نقصان پہنچانے کے لیے جانے جاتے ہیں کیونکہ وہ حفاظتی ٹیکوں کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور ہسپتالوں کو تباہ کر کے بچوں کو بیماریوں کا نشانہ بننے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں"۔

دریں اثنا، پبی، نوشہرہ ڈسٹرکٹ میں، حکام نے سیٹلائٹ ہسپتال پبی کا نام اگست 2010 میں، میاں راشد حسین شہید میموریل ہسپتال رکھ دیا تھا۔

یہ قدم میاں راشد حیسن جو کہ عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما میاں افتخار حسین کے بیٹے تھے، کو عسکریت پسندوں کی طرف سے قصبے میں ہلاک کیے جانے کے ایک ماہ کے بعد اٹھایا گیا۔

ہسپتال کے ایک ڈاکٹر، ڈاکٹر نثار علی نے کہا کہ "اب زیادہ بہتر سہولیات میسر ہیں کیونکہ حکومت نے ساز و سامان اور مزید سرمایہ مہیا کیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ طالبان پاکستان اور افغانستان میں طبی سہولیات کو تباہ کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ تاہم، حکومت نے، سہولیات کو بہتر بنانے اور اس بات کو یقینی بنا کر کے عوام حسین کو یاد رکھیں، مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500