جرم و انصاف

شدّت پسندی پر عالمی کریک ڈاؤن کےدوران عسکریت پسندوں کو بڑھتی ہوئی سخت سزاؤں کا سامنا

ضیاء الرّحمٰن

داعش کے پکڑے گئے ارکان شام میں کاروائی کے منتظر ہیں۔ [فائل]

داعش کے پکڑے گئے ارکان شام میں کاروائی کے منتظر ہیں۔ [فائل]

کراچی – "دولتِ اسلامیہ" (داعش) اور دیگر دہشتگرد گروہوں میں شمولیت اختیار کرنے والے افراد کو اپنے اعمال پر دنیا بھر میں حکومتوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی سخت سزاؤں کا سامنا ہے۔

مثال کے طور پر 2018 کے آغاز سے اب تک عراق نے داعش میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کا سفر کرنے والے 500 سے زائد غیرملکی مردوخواتین کو سزائیں سنائی ہیں۔

سزائے موت کے منتظر غیر عراقیوں میں گیارہ فرانسیسی شامل ہیں، جبکہ تین دیگر کو داعش سے وابستہ ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تاحال کوئی عملدرآمد نہیں ہوا، تاہم سزائے موت یا عمر قید پانے والے سینکڑوں غیر ملکی دہشتگردوں کا مقدّر عراق کے عدالتی نظام پر منحصر ہے، نہ کہ اس کی نفاذِ قانون کی شاخ پر۔

29 مئی کو بغداد میں کرخ مرکزی اپیلز عدالت کا ایک کمرہٴ عدالت دکھایا گیا ہے۔ اس روز ایسے فرانسیسی قومیت رکھنے والوں کے مقدمات کی سماعت ہو رہی تھی جن پر داعش سے منسلک ہونے کا الزام تھا۔ [صباح ارار/اے ایف پی]

29 مئی کو بغداد میں کرخ مرکزی اپیلز عدالت کا ایک کمرہٴ عدالت دکھایا گیا ہے۔ اس روز ایسے فرانسیسی قومیت رکھنے والوں کے مقدمات کی سماعت ہو رہی تھی جن پر داعش سے منسلک ہونے کا الزام تھا۔ [صباح ارار/اے ایف پی]

عبدالمہدی نے بین الاقوامی میڈیا کو پوری طوالت کے پہلے انٹرویو میں کہا، "ہم نے ان سزاؤں میں تخفیف کے لیے کسی ملک سے کوئی وعدے نہیں کیے۔"

انہوں نے کہا، "نظامِ انصاف ریاستِ عراق کو اجازت نہیں دیتا کہ سزائے موت پانے والوں کو معاف کرے۔"

دہشتگردی سے متعلقہ فیصلوں کا جائزہ لینا اور انہیں برقرار رکھنا، تبدیل کرنا یا منسوخ کرنا عراق کی عدالتِ مرافعہ کا فیصلہ ہے۔

عبدالمہدی نے 8 اگست کو مقامی ٹیلی ویژن سٹیشنز کے ساتھ شیئر کیے گئے انٹرویو میں کہا کہ عراق میں "سزائے موت قانونی ہے--- یورپ میں اسے ختم کر دیا گیا ہے، اور ہم اس نقطہٴ نظر کا احترام کرتے ہیں، لیکن ہم اس میں ان سے مختلف ہیں۔"

پاکستان میں انسدادِ دہشتگردی عدالتیں

پاکستان میں حکومت نے ایک آئنی ترمیم پردستخط کرتے ہوئے عسکری عدالتوں کو دہشتگردی کے ملزمان کے مقدمات کی سماعت کرنے کی اجازت دی اوردسمبر2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکولپر حملے کے بعد سزائے موت پر عائد غیر اعلانیہ پابندی اٹھا لی۔

انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر ) کے مطابق، وفاقی حکومت نے دسمبر 2014 سے دسمبر 2018 تک کے 717 دہشتگرد ملزمان کے مقدمات عسکری عدالتوں میں بھیجے۔

آئی ایس پی آر نے کہا کہ اب تک نمٹ جانے والے مقدمات میں عسکری عدالتوں نے 310 کو سزائے موت سنائی اور 234 کو عمر قید سے لیکر 5 برس قید تک کی مختلف سزائیں سنائیں۔ ملزمان میں سے دو کو رہا بھی کر دیا گیا.

آئی ایس پی آر نے کہا کہ 310 سزائے موت میں سے چھیالیس پر عملدرآمد ہو چکا ہے۔

سزائے موت پانے والوں میں متعدد بڑے دہشتگرد حملوں کے منصوبہ ساز، مرتکبین اور معاونین/سہولت کار شامل ہیں۔

مثال کے طور پرداعش سے منسلک دہشتگردسعد عزیز کو 2016 میں ایک عسکری عدالت سے سزائے موت ملی۔ وہ ابھی تک عملدرآمد کا منتظر ہے۔

وہ مئی 2015 میں سفورہ گوٹھ کے علاقہ میں اسماعیلی برادری کے تقریباً 45 ارکان کے قتل اور اپریل 2015 میں ایک سماجی کارکن اور حقوقِ انسانیت کی فعالیت پسند سبین محمود کے قتل سمیت کراچی میں متعدد دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث تھا۔

محمود کی ایک دوست، صبیہ علی نے اس عدالت کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔

علی نے کہا، "مقدمات چلنے اور پیروی ہونے، بالخصوص سزائے موت دیے جانے کی وجہ سے ملک میں عسکریت پسندی میں کمی واقع ہوئی ہے کیوں کہ اس سے عسکریت پسند گروہوں میں خوف اور باشندوں میں اعتماد پیدا ہوا۔"

عسکریت پسندوں کے خلاف قیام

پاکستان کی عسکری عدالتیں ان سنجیدہ نوعیت کے مقدمات پر کاروائی کو تیز تر کر دیتی ہیں جنہیں عام عدالتی نظام تیزی سے نمٹا نہیں سکتا۔

ایک حالیہ مقدمہ میں انسدادِ دہشتگردی کی ایک مقامی عدالت نے 29 جون کو ضلع گجرانوالہ، صوبہ پنجاب میں دو عسکریت پسندوں میں سے ہر ایک کو 17 برس سے زائد قید کی سزا سنائی۔

جیشِ محمّد (JeM) کے ارکان ان دونوں عسکریت پسندوں کو تخریبی سرگرمیوں اور دہشتگرد گروہوں کے لیے مالیات جمع کرنے میں ملوث ہونے پر سزا سنائی گئی۔

ماضی میں سولین عدالتوں کے ججوں اور وکلاء کو دہشتگرد گروہوں سے متواتر دھمکیاں برداشت کرنا پڑیں۔

نئی دہلی اساسی ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل ویب سائیٹ کے مطابق، 2004 سے اب تک پاکستان میں160 سے زائد وکلاء – جن میں جج یا دیگر عدالتی اہلکار شامل نہیں – مارے جا چکے ہیں۔

زیادہ تر حملے تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) اور داعش کی جانب سے ہوئے، جو باقاعدگی سے ججوں کو قتل کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔

سب سے زیادہ تباہ کن حملوں میں سے 2016 میں کوئٹہ کے سول ہسپتال کا خودکش بم حملہ تھا، جہاں درجنوں مقامی وکلاء، اسی روز قبل ازں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کے قتل پر تعزیت کے لیے جمع ہوئے تھے۔

داعش نے اس بم حملے کی ذمہ اری قبول کی، جس میں کم از کم 70 پاکستانی شہید ہوئے، جن میں سے زیادہ تر وکلاء اور جج تھے۔

کراچی کے ایک سینیئر وکیل راجہ حسن نے کہا، "پاکستان میں عدالتوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف جانا آسان نہیں۔"

حسن نے کہا، "ہم ججوں اور وکیلوں کے لیے یہ معمول کی بات ہے کہ [طالبان] عسکریت پسند ہمیں بتائیں کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے بچے کس سکول میں جاتے ہیں۔ یہ دہشت انگیز ہے، لیکن ملک میں بحالیٴ امن کے لیے، ہم ان امن مخالف عناصر کے خلاف کھڑے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500