تعلیم

قبائلی اضلاع کے باشندوں کی جانب سے خواندگی مراکز کے قیام کی تعریف

از حنیف اللہ

اپریل میں باجوڑ کے اندر ناخواندہ قبائلی خواتین اپنی جماعت میں پڑھنا اور لکھنا سیکھ رہی ہیں۔ [حنیف اللہ]

اپریل میں باجوڑ کے اندر ناخواندہ قبائلی خواتین اپنی جماعت میں پڑھنا اور لکھنا سیکھ رہی ہیں۔ [حنیف اللہ]

خار – قبائلی اضلاع میں پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ نئے بنائے گئے خواندگی مراکز پڑھنا سیکھنے اور ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد کر رہے ہیں۔

غربت اور عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے، قومی کمیشن برائے انسانی ترقی (این سی ایچ ڈی) پاکستان نے گزشتہ دسمبر میں قبائلی اضلاع سمیت، ملک بھر میں 2،000 خواندگی مراکز قائم کیے تھے۔

10 برس سے زائد عمر کے کوئی 60 ملین پاکستانی ناخواندہ ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 72 فیصد مرد اور 52 فیصد خواتینخواندہ ہیں۔

ضلع باجوڑ میں این سی ایچ ڈی کی شاخ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر، محمد ریاض نے کہا، "اس منصوبے کا بنیادی مقصد 2030 تک 90 فیصد خواندگی کا حصول ہے جو کہ استحکام پذیر ترقی کے ان اہداف کے مطابق ہے جن کی پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں توثیق کی ہوئی ہے۔ منصوبے کا نفاذ پاکستان ہیومن ڈویلپمنٹ فنڈ (پی ایچ ڈی ایف) کی مدد سے کیا جا رہا ہے۔"

مارچ میں باجوڑ کے اندر ایک استانی ناخواندہ قبائلی خواتین کو بنیادی ریاضی اور حرف شناسی سکھاتے ہوئے۔ [حنیف اللہ]

مارچ میں باجوڑ کے اندر ایک استانی ناخواندہ قبائلی خواتین کو بنیادی ریاضی اور حرف شناسی سکھاتے ہوئے۔ [حنیف اللہ]

این سی ایچ ڈی کی باجوڑ شاخ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد ریاض اپریل میں باجوڑ کے اندر خواندگی مراکز کے قیام کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے۔ [حنیف اللہ]

این سی ایچ ڈی کی باجوڑ شاخ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد ریاض اپریل میں باجوڑ کے اندر خواندگی مراکز کے قیام کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے۔ [حنیف اللہ]

ریاض کے مطابق، بنائے گئے 2،000 خواندگی مراکز میں سے، 540 مراکز خیبرپختونخوا (کے پی)، بشمول قبائلی اضلاع میں واقع ہیں۔

انہوں نے کہا، ان میں 80 مراکز لکی مروت میں، 80 بونیر میں، 60 ڈیرہ اسماعیل خان میں، 60 ٹانک میں، 60 چارسدہ میں، 40 مانسہرہ میں، 40 اپر دیر میں، 20 لوئر دیر میں، 40 خیبر میں، 40 مہمند میں اور 20 باجوڑ میں شامل ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، "منصوبے کا بنیادی مقصد غربت کا خاتمہ ہے۔"

امید دلانا

ریاض نے کہا کہ ہر ایک مرکز میں 11 سے 45 سال عمر کے 25 طلباء و طالبات کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ اساتذہ پانچ ماہ کے عرصے میں چار کتب پڑھاتے ہیں، حکومت کی جانب سے منظور شدہ نصاب میں ریاضی اور نفسیات شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورسز کی تکمیل پر، طلباء و طالبات کچن گارڈننگ اور کپڑوں کی سلائی جیسے ہنر سیکھیں گے تاکہ وہ چھوٹے سے درمیانے حجم کے کاروبار چلا سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مراکز کی اکثریت خواتین کے لیے قائم کی گئی تھی کیونکہ وہ مردوں سے کم شرح خواندگی رکھتے ہوئے گھر کے آمدن اور اخراجات کو سنبھال رہی ہیں۔ حکام نے اقلیتوں کے لیے بھی مراکز قائم کیے ہیں۔

انجمنِ اقلیتاں باجوڑ کے سیکریٹری جنرل، جمیل بسمل نے کہا، "باجوڑ میں اقلیتی خواتین کے لیے دو مراکز قائم کیے گئے ہیں، اور ہمیں ان مراکز کے قیام پر خوشی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ ہر ایک مرکز میں پچیس خواتین داخل ہیں۔

باجوڑ سے تعلق رکھنے والی 31 سالہ عیسائی خاتون، بناش پرویز نے کہا، "مجھے مرکز کے قیام کی خوشی ہے۔۔۔ مرکز میں جماعتیں پڑھنے کے بعد، میں اب اردو میں ایک پیراگراف پڑھ اور سمجھ سکتی ہوں۔"

ان کا کہنا تھا، "جب میں اپنا نصاب مکمل کر لوں گی تو مجھے اچھی نوکری مل جائے گی۔"

ایک مرکز میں داخل 30 سالہ منیر خان نے کہا، "یہ این سی ایچ ڈی کی جانب سے ایک خوش آئند اقدام ہے، اور ہمیں خوشی ہے کہ ایسی پہل کاریاں ہمارے لیے شروع کی گئی ہیں۔"

ان کا کہنا تھا، "اپنے خاندان کے بجٹ کو باآسانی سنبھالنے کے لیے میں ریاضی کے بنیادی اصول سیکھنا چاہتا ہوں۔"

انہوں نے مزید کہا، "میں ایک تجربہ کار ڈرائیور ہوں اور ایک اچھی ملازمت حاصل کر سکتا ہوں، مگر ناخواندگی ایک بنیادی رکاوٹ ہے۔"

باجوڑ لیویز کے ایک ملازم، شفیع خان نے کہا، "میں ایسا کوئی کورس کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ناخواندگی کے باعث روزمرہ زندگی میں مجھے مشکلات پیش آتی ہیں۔"

شفیع نے کہا، "مجھے اے ٹی ایم [آٹومیٹک ٹیلر مشین] کے ذریعے بینک سے اپنی تنخواہ نکلوانے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میں تعلیم یافتہ ہوتا۔۔۔ مگر اب میں ایسے کورسز کے آغاز پر پُرامید ہوں۔"

تعلیم کی اہمیت

تعلیم واحد راستہ ہےایک پُرامن معاشرے کے قیام کے لیے, ، اور عوام کو تعلیم یافتہ بنا کر، ہم عسکریت پسندی کو باآسانی شکست دے سکتے ہیں۔" گورنمنٹ کالج آف مینجمنٹ سائنسز باجوڑ (جی سی ایم ایس بی) کے ایک پروفیسر، بخت منیر نے کہا، "

انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں عسکریت پسندی اور عدم استحکام کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ باشندوں کی اکثریت ناخواندہ ہے۔

ان کا کہنا تھا، "ہم تعلیم پر توجہ دے کر ہی ایک پُرامن نسل بنا سکتے ہیں۔"

جی سی ایم ایس بی پر ایک لیکچرار، خالد حبیب نے کہا، "ماضی میں، عسکریت پسند ناخواندہ نوجوانوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر بھرتی کرتے تھے، اور یہ عسکریت پسندی اور انتہاپسندی کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ تھی۔"

حبیب نے کہا کہ عسکریت پسندی میں اضافہ غربت کا سبب بھی بنا، اور عسکریت پسندوں نے بیروزگاری کو ماضی میں اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ این سی ایچ ڈی کی پہل کاری ایک خوش آئند قدم ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے ناصرف شرح خواندگی میں اضافہ ہو گابلکہ یہ غربت اور عسکریت پسندی کا خاتمہ بھی کرے گی.

اسلام آباد کے مقامی حقوقِ اطفال کے ایک تجزیہ کار، ارشد محمود نے کہا، "مرکزی دھارے کی تعلیم ناصرف بچوں سے مزدوری کروانے، بچپن میں شادی اور دیگر متعلقہ مسائل کو ختم کرنے میں مدد دے گی بلکہ یہ پاکستان میں عسکریت پسندی کے خاتمے میں بھی مدد دے گی۔"

انہوں نے کہا، "اگر بچے سکولوں سے باہر ہوں گے، تو وہ گلیوں میں پھرنے، مزدوری کرنے، نابالغوں کے جرائم اور مجرم یا عسکریت پسند گروہوں میں شامل ہونے کے لیے بھی حساس ہوں گے۔ پاکستان کے لیے تعلیم واحد راستہ ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ای ایس اے کی ہنگامی صورتِ حال

جواب

میں اس وقت مالاکنڈ میں سی ڈی ایل ڈی کے پی کے پراجیکٹ میں کام کر رہا ہوں

جواب