مذہب

جماعت اسلامی پاکستان کورونا وائرس کی وباء کو بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کر رہی ہے

از ضیاء الرحمان

الخدمت فاؤنڈیشن (اے کے ایف)، جماعتِ اسلامی پاکستان (جے آئی) کی ایک فلاحی شاخ کے ارکان 31 مارچ کو کراچی میں ایک مندر میں کورونا وائرس کے خلاف ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر جراثیم کش دوا کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے۔ [جے آئی میڈیا سیل]

الخدمت فاؤنڈیشن (اے کے ایف)، جماعتِ اسلامی پاکستان (جے آئی) کی ایک فلاحی شاخ کے ارکان 31 مارچ کو کراچی میں ایک مندر میں کورونا وائرس کے خلاف ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر جراثیم کش دوا کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے۔ [جے آئی میڈیا سیل]

کراچی -- جماعتِ اسلامی پاکستان (جے آئی) کورونا وائرس کے بحران کے درمیانبین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے طریقے تلاش کر رہی ہے.

کوشش کے جزو کے طور پر، الخدمت فاؤنڈیشن (اے کے ایف)، جو جماعت کی فلاحی شاخ ہے، ملک بھر میں مساجد، گرجا گھروں، مندروں اور گردواروں کی جراثیم کشی میں مدد دیتی رہی ہے۔

جماعتِ اسلامی کراچی کے ترجمان، زاہد عسکری نے کہا کہ بدھ (1 اپریل) سے، الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار مذہبی عمارات میں جا رہے ہیں اور ان میں جراثیم کش کیمیائی مادوں کا چھڑکاؤ کر رہے ہیں۔

یہ اقدام امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق کی جانب سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیے جانے کے بعد ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنے جماعت کے رضاکاروں اور نوجوان کارکنان سے مذہبی اقلیتوں اور خواجہ سراؤں کا خیال رکھنے کی ہدایت کی ہے جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے نافذ کردہ لاک ڈاؤن سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

ایک گرجا گھر کے باہر آویزاں بینر، جس کی تصویر 30 مارچ کو لی گئی تھی، میں اعلان کیا گیا ہے کہ کراچی میں تمام گرجا گھر کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدبیر کے طور پر بند ہیں۔ جماعت اسلامی کی شاخ مساجد، گرجا گھروں، مندروں اور گردواروں کی جراثیم کشی کی مہم پر نکل چکی ہے۔ [ضیاء الرحمان]

ایک گرجا گھر کے باہر آویزاں بینر، جس کی تصویر 30 مارچ کو لی گئی تھی، میں اعلان کیا گیا ہے کہ کراچی میں تمام گرجا گھر کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدبیر کے طور پر بند ہیں۔ جماعت اسلامی کی شاخ مساجد، گرجا گھروں، مندروں اور گردواروں کی جراثیم کشی کی مہم پر نکل چکی ہے۔ [ضیاء الرحمان]

انہوں نے کہا کہ رضاکار لاک ڈاؤن سے متاثرہ غیر مسلم علاقوں میں غریب خاندانوں میں راشن بھی تقسیم کریں۔

جماعتِ اسلامی کے مطابق، کراچی اور پشاور، جو کہ ملک کے دو بڑے شہر ہیں، میں الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے سات گرجا گھروں، پانچ مندروں اور دو گردواروں میں جراثیم کشی کی ہے، جبکہ دیگر شہروں میں بھی اس کوشش میں حصہ لینے کا منصوبہ ہے۔

کراچی کے مضافاتی علاقے کلفٹن کے ایک ہندو رہائشی، راجیش کمار نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ وہ مندر جہاں وہ اور ان کے اہلِ خانہ پوجا کرتے ہیں اسے الخدمت فاؤنڈیشن کے ارکان کی جانب سے جراثیم کش کیا گیا ہے۔

کمار، جو کہ ایک طبی اہلکار ہیں، کا کہنا تھا، "بحران موقع فراہم کرتے ہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے اور عالمی وباء کے خلاف مل کر لڑنے کے لیے مختلف مذاہب کے ارکان کو اکٹھا ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔"

سکھوں کے حقوق کی ایک آزاد تنظیم، پاکستان سکھ کونسل کے ایک رہنماء، سردار راجیش سنگھ نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی کورونا وائرس سے جراثیم کشی کے لیے چھڑکاؤ کرنا ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی کو مزید مضبوط کرے گا۔

25 مارچ کو کابل، افغانستان میں ایک گردوارے، جس میں 100 سے زائد سکھ صبح کی عبادت کے لیے جمع تھے، پر ہونے والے حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سنگھ کا کہنا تھا کہ یہ کوشش اس وقت کی گئی ہے جب "دہشت گرد تنظیمیں جو اسلام کے نام کو غلط استعمال کر رہی ہیں ہماری عبادت گاہوں پر بزدلانہ حملے کر رہی ہیں۔"

"دولتِ اسلامیہ" (داعش) نے اس خونریزی کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

بین المذاہب ہم آہنگی

دہشت گرد تنظیموں، بشمول داعش اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پاکستان اور افغانستان میں مذہبی اقلیتوں کو ہدف بنانے کی ایک تاریخ رہی ہے۔

تاہم، پاکستانی حکام، سول سوسائٹی کے گروہوں، اور افراد نے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے کئی پہل کاریاں کی ہیں۔

پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے درمیان جاری تناؤ کے باوجود، دونوں ممالک نے گزشتہ نومبر میں بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کے لیےکرتارپور راہداری کھولنےپر اتفاق کیا تھا۔ اس اقدام نے یاتریوں کو صوبہ پنجاب کے ایک مقدس مقام کی یاترا کرنے کے قابل بنایا تھا جو سکھ دھرم کے بانی گرو نانک دیو جی نے سنہ 1522 میں قائم کیا تھا۔

گزشتہ ستمبر میں، علاقے کے سینکڑوں مسلمان مکینوں نے صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ایک مشتعل ہجوم کی جانب سے اس افواہ،کہ علاقے کے ایک ہندو پرنسپل نے توہینِ اسلام کی ہے، کے بعد ایک مندر میں توڑ پھوڑ کیے جانے پر، ہندو برادری کی حمایت میں ایک ریلی نکالی تھی۔

خود کو فسادات سے دور رکھتے ہوئے، مسلمان دینی قائدین نے تباہ شدہ مندر میں مقامی ہندو نمائندوں کے ساتھ شب بسری کی تھی۔

دوسری طرف سے، سکھ اور دیگر مذہبی اقلیتی گروہوں نے رمضان المبارک کے دوران روزہ دار مسلمانوں کے لیے اکثر افطاری کا اہتمام کیا تھا، ایک ایسا طرزِ عمل جو پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کی عکاسی کرتا ہے۔

گزشتہ برس، خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں ایک سکھ کریانہ فروش کو بہت سراہا گیا تھا جب رمضان کے دوراناس نے مسلمانوں کے لیے اجناس اور کھانے پینے کی اشیاء کے نرخ کم کر دیئے تھے .

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

خوب

جواب