مذہب

یومِ آزادی پر پاکستانی اقلیتوں کی جانب سے حب الوطنی، وفاداری کا مظاہرہ

از محمد شکیل

اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچے 13 اگست کو پشاور میں پاکستان کا قومی ترانہ پڑھتے ہوئے۔ [تصویر بشکریہ محمد شکیل]

اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچے 13 اگست کو پشاور میں پاکستان کا قومی ترانہ پڑھتے ہوئے۔ [تصویر بشکریہ محمد شکیل]

پشاور -- عسکریت پسندوں کے حملوں سے بے خوف ہو کر، پاکستان میں عیسائیوں اور دیگر اقلیتی گروہوں نے یومِ آزادی (14 اگست) منانے کے لیے رنگا رنگ تقریبات کا انعقاد کرتے ہوئے اپنی حب الوطنی کا اظہار کیا۔

تقریب، جو کہ ایک روز قبل ڈائیوسیز آف پشاور - چرچ آف پاکستان میں منعقد ہوئی تھی، ورلڈ ریلیف جرمنی اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں ایک بین المذاہب تنظیم، فیتھ فرینڈز فار پیس کے پی، کی سرپرستی میں ہوئی۔

اس کا مقصد پاکستان کے یومِ آزادی کی تقریبات میں اقلیتوں کو شامل کرنا اور امن، رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کا پیغام دینا تھا۔

مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے علاوہ، عیسائیوں، ہندوؤں اور سکھوں، نے تقریب میں شرکت کی جو اس بنیاد پر ہوئی تھی کہ عسکریت پسندوں کی نااتفاقی پیدا کرنے کی کوششوں کے باوجود، پاکستان کے متنوع معاشرے میں ایک بے مثال اتحاد اور اتصال موجود ہے۔

خوف کی حدود سے گریز

کے پی سول سیکریٹیریٹ کے ایک ریٹائرڈ اہلکار اور پشاور میں ہندوؤں کے گورکناتھ مندر کے رکھوالے، کاکا رام نے کہا کہ ان کا قبیلہ پشاور میں چار سے پانچ صدیوں سے رہ رہا ہے اور ان کا یہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "[1947 میں] نئے بننے والے پاکستان کی قیادت پر ہمارے لوگوں کا اعتقاد اس وقت مضبوط ہوا جب [بانیٔ پاکستان] قائد اعظم [محمد علی جناح] نے ملک میں بسنے والے اقلیتی گروہوں کے لیے مساوی حقوق اور عبادت کرنے کی آزادی کا اعلان کیا۔"

اپنے قبیلے کے سرپنچ، رام نے کہا، "ہماری برادری یہاں محفوظ ہے اور اسے کسی بھی دوسرے شہری کی طرح مساوی حقوق حاصل ہیں۔ میں اس سرزمین سے ہجرت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا جس نے مجھے دنیا میں پاکستانی کے طور پر ایک شناخت دی۔"

انہوں نے کہا، "میں اپنے پوتے کے ساتھ یہاں یومِ آزادی منانے [اور یہ دکھانے] آیا ہوں کہ ہندو برادری محبِ وطن ہے اور جو بھی حالات ہوں جائیں پاکستان کو کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گی۔"

حالیہ برسوں میں ہندوؤں کے خلاف پرتشدد واقعات میں اضافے سے برادری میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی، جب صرف مارچ 2014 میں پورے ملک میں پانچ مندروں پر حملہ ہوا تھا۔

ملک میں جاری آپریشن ضربِ عضب، جو کہ جون 2014 میں شروع ہوا تھا، اور دہشت گردوں کے خلاف دیگر فوجی آپریشنوں کے حوالے سے کل پاکستان ہندو حقوق تحریک کے چیئرمین، ہارون سربدیال نے کہا، "انتہاپسندی کے خلاف کامیاب آپریشنوں کے بعد امن و امان کی صورتحال میں بہتری نے ۔۔۔ خوف کی حدود سے رہائی کا ایک موقع فراہم کرتے ہوئے ہمارے لوگوں میں اعتماد کا ایک احساس پیدا کیا ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "دہشت گردی کے خوفناک واقعات جن میں اقلیتی برادری کے ارکان مارے گئے تھے ۔۔۔ کے انمٹ اثرات کو مٹانا ۔۔۔ بہت مشکل تھا، لیکن آج کی امن و امان کی بہت بہتر صورتحال میں ہم خود کو اپنے خوف پر مکمل طور پر قابو پانے کے قابل سمجھتے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے جب ہم مکمل امن اور اطمینان کے ساتھ اپنے مندر میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے دن میں دو بار جانے کے قابل ہوں گے۔"

رواداری، بین المذاہب قبولیت کا پیغام

حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں نے سکھوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا ہے۔

اپریل 2016 میں، وزیرِ اعلیٰ کے پی کے خصوصی مشیر برائے اقلیتی امور سردار سورن سنگھ، ایک سکھ، کو ضلع بونیر میں ان کے گھر کے قریب گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

ستمبر 2013 میں، پشاور میں آل سینٹس چرچ پر دو خود کش بمباروں نے عبادت گزاروں پر حملہ کر کے 127 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

اسی سال مارچ میں، لاہور میں بلوائیوں کا ایک گروہ جوزف کالونی پر چڑھ دوڑا تھا اور عیسائیوں کے تقریباً 150 گھروں اور دو گرجا گھروں کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔

ڈائیوسس آف پشاور -- چرچ آف پاکستان کے بشپ ہیمفرے سرفراز پیٹرس نے کہا، "اقلیتوں اور اکثریتی مسلمانوں کی جانب سے گرجا گھر میں یومِ آزادی کی تقریبات منانا رواداری اور بین المذاہب قبولیت کا ایک پیغام دیتا ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اقلیتی برادریوں نے کرسمس، دیوالی اور ہولی منانا شروع کر دیا ہے، جو ایک ایسی سوچ کی عکاسی ہے جس نے تفاوت کو للکارا ہے، خوف پر قابو پایا ہے اور جبر اور استحسال سے پاک ایک نئے آغاز کے احساس کی ابتداء کی ہے۔"

کلیدی عوامل جو ایک سماج کی نشوونما اور بقاء کی ضمانت دیتے ہیں وہ رواداری اور باہمی احترام ہیں، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پیش رفت اقلیتوں کے مابین تحفظ کے ایک بڑھتے ہوئے احساس کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا، "ایک ایسے سماج کے قیام کا ہدف جو اپنے تمام اجزاء کی جدوجہد کرنے اور زندہ رہنے میں مدد کرتا ہے صرف اس وقت حاصل کیا جا سکتا ہے اگر ہم متحد ہوں اور مادرِ وطن کے بہترین مفاد میں تمام اختلافات کو پسِ پشت ڈال دیں۔"

بشپ پیٹرس نے کہا، "ہمارا اتحاد اور اتصال نہ صرف دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملانے میں مدد کرے گا، بلکہ پاکستان میں رہنے والی برادریوں کے مابین باہمی اعتماد کی سطح کو بھی بلند کرے گا۔ ہمارے پیارے وطن کے عوام نے امن و امان کی بہتر صورتحال کے ثمرات سے فیض یاب ہونا شروع کر دیا ہے، اور میں پُرامید ہوں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال بہتر ہو گی۔"

کے پی محکمۂ ایکسائز کے ایک سکھ ملازم، درشن سنگھ نے کہا کہ انہوں نے آرکائیوز ہال پشاور میں اپنے کزن کی جانب سے اہتمام کردہ ایک ایسی ہی حالیہ بین المذاہب تقریب میں شرکت کی تھی۔

وہ "ہماری بقاء کے لیے یہیں رہے گا اور لڑے گا،" کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم محفوظ ہیں اور انتہاپسندی کے خوف سے پاکستان سے نہیں بھاگیں گے۔"

ضلعی نائب ناظم، سید قاسم علی شاہ، جنہوں نے ڈائیوسس آف پشاور -- چرچ آف پاکستان کی تقریب میں شرکت کی تھی، نے کہا، "یومِ آزادی کی تقریبات میں اقلیتوں کی شرکت مادرِ وطن کے لیے ان کی وفاداری اور ان کی حب الوطنی کا اظہار ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایک جدی پشتی پشاوری کے طور پر پچھلے 15 سالوں میں یومِ آزادی پر میں نے ایسی چہل پہل نہیں دیکھی تھی۔ اس طریقے سے اس دن کو منانا امن و امان کی تسلی بخش صورتحال، لوگوں میں تحفظ کے احساس، اور جارحیت کے خلاف ان کے لڑنے کے عزم کا غماز ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ آرٹیکل پڑھ کر میں درحقیقت بہت متاثر ہوا۔ تمام مذاہب کو متحد رکھنے کے لیے امن کی تعلیم کا یہ ایک بڑا سرچشمہ ہے۔

جواب