سلامتی

ایرانی حملہ آور کشتیوں کی آبنائے ہرمز میں تیل کے برطانوی ٹینکر پر قبضہ کرنے کی کوشش

سلام ٹائمز اور اے ایف پی

اس تصویر میں ایران کی اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں کی جانب سے خلیج میں استعمال کی جانے والی تیز رفتار حملہ آور کشتیاں دکھائی گئی ہیں۔ [فائل]

اس تصویر میں ایران کی اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں کی جانب سے خلیج میں استعمال کی جانے والی تیز رفتار حملہ آور کشتیاں دکھائی گئی ہیں۔ [فائل]

واشنگٹن، ڈی سی -- بدھ (10 جولائی) کے روز مسلح حملہ آور کشتیوں جن کے بارے میں یقین ہے کہ وہ ایران کے اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں (آئی آر جی سی) کی ملکیت ہیں نے تزویراتی خلیج کے پانیوں میں تیل کے ایک برطانوی ٹینکر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر رائل نیوی کے ایک تیز رفتار جنگی بحری جہاز نے انہیں بھگا دیا۔

برطانوی وزارتِ دفاع نے کہا، "تین ایرانی بحری جہازوں نے آبنائے ہرمز میں ایک تجاری بحری جہاز، برٹس ہیریٹیج، کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔"

دو امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے، سی این این نے کہا کہ ایرانیوں نے ٹینکر کو حکم دیا کہ وہ اپنا راستہ تبدیل کرے اور ایرانی پانیوں کے قریب رک جائے۔

سی این این کے مطابق، ایک امریکی جنگی ہوائی جہاز نے واقعہ کی ویڈیو بنائی، جو اس وقت اختتام پذیر ہو گیا جب ایچ ایم ایس مونٹروس -- جو ٹینکر کی نگرانی کر رہا تھا -- نے اپنی بندوقیں کشتیوں پر تان لیں اور کامیابی کے ساتھ انہیں پیچھے ہٹ جانے کی تنبیہ کی۔

3 فروری 2014 کو لی گئی اس فائل فوٹو میں، برطانوی جنگی بحری جہاز ایچ ایم ایس مونٹروس کو لیماسول، قبرص میں لنگرانداز دکھایا گیا ہے۔ 11 جولائی کو برطانوی حکومت نے کہا کہ تین ایرانی بحری جہازوں نے خلیجی پانیوں میں برطانوی تیل کے ٹینکر کا 'راستہ روکنے' کی کوشش کی، جس پر برطانوی جنگی جہاز کو مداخلت کرنی پڑی۔ [اے ایف پی]

3 فروری 2014 کو لی گئی اس فائل فوٹو میں، برطانوی جنگی بحری جہاز ایچ ایم ایس مونٹروس کو لیماسول، قبرص میں لنگرانداز دکھایا گیا ہے۔ 11 جولائی کو برطانوی حکومت نے کہا کہ تین ایرانی بحری جہازوں نے خلیجی پانیوں میں برطانوی تیل کے ٹینکر کا 'راستہ روکنے' کی کوشش کی، جس پر برطانوی جنگی جہاز کو مداخلت کرنی پڑی۔ [اے ایف پی]

آئی آر جی سی، جسےکئی دہائیوں سے دنیا بھر میں جارحانہ اقدامات کے بعد اپریل میں ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھانے برطانوی ٹینکر پر قبضہ کرنے یا اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرنے کی تردید کی ہے۔

پاسدارانِ انقلاب نے ایک بیان میں کہا، "گزشتہ 24 گھنٹوں میں کسی بھی غیر ملکی جہاز، بشمول برطانوی جہاز، کے ساتھ کوئی مڈ بھیڑ نہیں ہوئی۔"

تاہم، تردید نے اُن حالیہ دھمکیوں کی روشنی میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں جو ایرانی حکومت نے برطانیہ کو دی ہیں۔

نیم سرکاری خبر رساں ادارے فارس نیوز نے بتایا کہ جمعرات (11 جولائی) کے روز آئی آر جی سی نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ کو گزشتہ ہفتے کے آخر میں جبرالٹر سے باہر ایک ایرانی ٹینکر کو حراست میں لینے پر "بہت پچھتانا" پڑے گا۔

جبرالٹر کے حکام نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ سامان سے لدے ہوئے اس بحری جہاز کی منزل شام تھی، جو کہ یورپی پابندیوں میں آتا ہے۔ ٹینکر کو برٹش رائل میرینز کی مدد سے جبرالٹر پولیس کی جانب سے روکا گیا تھا۔

پاسدارانِ انقلاب کے نائب کمانڈر انچیف، ریئر ایڈمرل علی فداوی نے کہا، "اگر دشمن کو ذرا سا بھی اندازہ ہوتا، تو وہ یہ کام نہ کرتا۔"

ایرانی صدر حسن روحانی نے بدھ کے روز برطانیہ کو اس فعل کے "نتائج" پر تنبیہ کی تھی جسے انہوں نے "ایک بیوقوفانہ فعل" قرار دیا تھا۔

سرکاری ٹی وی کے ذریعے نشر ہونے والی کابینہ کی کارروائی میں روحانی نے کہا، "میں برطانیہ کو متنبہ کرتا ہوں کہ آپ نے [سمندروں میں] عدم تحفظ کی ابتداء کی ہے اور آپ کو آگے چل کر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔"

سوموار (8 جولائی) کو، ایرانی وزیرِ دفاع بریگیڈیئر، جنرل عامر حتامی نے برطانیہ کے اقدام کا جواب دینے کا عہد کیا تھا، جسے انہوں نے بحری قذاقی کا فعل قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ قبضے کو "ہماری جانب سے برداشت نہیں کیا جائے گا۔"

ایک اہم مشاورتی اور ثالثی ادارے، ایران کی مصالحتی کونسل کے سیکریٹری، محسن رضائی نے متنبہ کیا کہ اگر برطانیہ ٹینکر کو آزاد کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو ایران انتقامی کارروائی کرنے پر مجبور ہو گا۔

انہوں نے کہا، "اگر برطانیہ ایرانی تیل کے ٹینکر کو نہیں چھوڑتا، تو متعلقہ حکام کا فرض ہو گا کہ وہ انتقامی کارروائی کریں اور برطانیہ کے تیل کے ٹینکر پر قبضہ کر لیں۔"

ایران کی نگرانی

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب امریکہ ایرانی حکومت کے جانب سے شدید ہوتے ہوئے خطرے کے خلاف ایک متحدہ محاذ پیش کرنے کے لیے ایک اتحاد بنانے کے لیے پُرامید ہے۔

ایک اعلیٰ امریکی فوجی افسر، جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا کہ امریکہ قائدانہ کردار ادا کرے گا اور نگرانی فراہم کرے گا جبکہ دیگر ممالک اپنے پرچموں کے تلے بحری جہازوں کو اپنی حفاظت میں لے کر جائیں گے۔

منگل (9 جولائی) کے روز ڈینفورڈ نے کہا، "میرا خیال ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں ہم معلوم کر لیں گے کہ کون سے ممالک میں اس پہل کاری کی حمایت کرنے کا سیاسی ارادہ ہے، اور پھر ہم ان مخصوص صلاحیتوں کی شناخت کے لیے افواج کے ساتھ براہِ راست کام کریں گے جو اس ارادے کی معاونت کرے گا۔"

انہوں نے کہا کہ اتحاد آبنائے ہرمز -- خلیج کا مصروف ترین مقام جہاں سے دنیا بھر کے تیل کا 20 فیصد گزرتا ہے -- اور باب المندب، جنگ زدہ یمن سے باہر بحرِ مردار میں ایک انتہائی اہم بحری راستے، دونوں کی نگرانی کرے گا۔

امریکی مرکزی کمان کے ممتاز ترجمان، کیپٹن بل اربن نے جمعرات کے روز کہا، "بحری جہازوں کی بین الاقوامی آزادی کو لاحق خطرات ایک بین الاقوامی حل کے متقاضی ہیں۔ عالمی معیشت کا دارومدار تجارت کے آزادانہ بہاؤ پر ہے، اور تمام ممالک کا فرض ہے کہ وہ عالمگیر خوشحالی کے دھرے کے اس کیل کی حفاظت کریں اور اسے محفوظ رکھیں"۔

یہ اتحاد انتہائی تناؤ کے وقت میںایرانی فوج کی جانب سے بین الاقوامی پانیوں میں امریکہ ڈرون مار گرانےاورآبنائے ہرمز کے قریب تیل کی کئی ٹینکروںپر حملہ کرنے کے بعد بن رہا ہے۔

'نیوکلیائی توسیع'

دریں اثناء،ایرانی حکومت نے سوموار کے روز سنہ 2015 میں ہونے والے بین الاقوامی نیوکلیائی معاہدے میں مقرر کردہ یورینیم کو افزودہ کرنے کی حد کی خلاف ورزی کرنے کا اعتراف کیا تھا۔

جواب میں، متعلقہ ممالک نے بین الاقوامی نیوکلیائی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ایک ہنگامی اجلاس کی درخواست کی تھی۔

آئی اے ای اے میں امریکی سفیر، جیکی وولکوٹ نے اجلاس میں بتایا کہ ایرانی حکومت "نیوکلیائی توسیع" میں مشغول ہے۔

تہران نے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک معاہدے کے تحت مخصوص پابندیوں کو نہیں مانے گا جب تک معاہدے کے باقی فریقین -- خصوصاً برطانیہ، فرانس اور جرمنی -- امریکی پابندیوں کے اثر کو کم کرنے کے لیے مزید کچھ نہیں کرتے۔

وولکوٹ نے کہا، "اسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے پیسہ بٹورنے کی ایک غیر مہذب اور واضح کوشش کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جا سکتا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500