رواداری

مشعال خان کے چہلم پر رواداری اور عدم تشدد کی ضرورت پر زور

جاوید خان

21 مئی کو مشعال خان کے چہلم کے سلسلہ میں ضلع صوابی، خیبر پختونخوا میں ایک مقرر ایک اجتماع سے خطاب کر رہا ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے اس طالبِ علم کو 13 اپریل کو توہینِ رسالت کے الزام میں ایک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔[جاوید خان]

21 مئی کو مشعال خان کے چہلم کے سلسلہ میں ضلع صوابی، خیبر پختونخوا میں ایک مقرر ایک اجتماع سے خطاب کر رہا ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے اس طالبِ علم کو 13 اپریل کو توہینِ رسالت کے الزام میں ایک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔[جاوید خان]

زائدہ – توہینِ رسالت کے الزامات پر مردان میں ایک مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کر دیے جانے والے یونیورسٹی کے ایک طالبِ علم مشعال خان کی رسمِ چہلم کے لیےاتوار (21 مئی) کو متعدد پاکستانی جمع ہیں۔

مرکزی چہلم مشعال کے آبائی وطن زائدہ، ضلع صوابی، خیبر پختونخواہ (کے پی) میں منعقد ہوا۔ دیگر دعائیہ تقاریب پشاور، کوئٹہ اور مشال کے پشتون ورثہ کے حوالہ سے کابل تک میں منعقد ہوئیں۔

صوابی میں چہلم کے شرکاء اور مقررین نے قرآنِ پاک سے آیات پڑھیں اور معاشرہ میں بردباری، مذہبی رواداری اور عدم تشدد کا پیغام پھیلایا۔

چہلم سے قبل صوبائی حکومت نے عوام الناس کو تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کرنے کی غرض سے بڑے سائن بورڈ آویزاں کیے۔ سوشل میڈیا کے صارفین نے ایک دوسرے کو چہلم کے لیے دعوت دی۔

پاکستانی مشعال خان کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں

مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے ایک 23 سالہ طالبِ علم مشعال خان کا 13 اپریل کو ہونے والا قتل ملک بھر میں اور بین الاقوامی طور پر غم و غصہ کا باعث بنا۔

سینکڑوں طالبِ علموں نے مشعال کو برہنہ کیا، اسے زدوکوب کیا اور اسے گولیاں ماریں اور اس یونیورسٹی ہاسٹل کی دوسری منزل سے اسے نیچے پھینک دیا جہاں وہ مقیم تھا۔ مشال کے خلاف توہینِ رسالت کے الزامات ثابت نہیں ہو سکے۔

اس کی والدہ بیگم محمّد اقبال نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہمیں اقدامات کرنے چاہیئں تاکہ کوئی اور کسی کو اس قدر بربریّت سے نہ کھو دے۔“

سوگواران نے مشال کی قبر پر چادریں چڑھائیں، اور خواتین مشعال کی والدہ اور بہنوں کے ساتھ تلاوتِ قرآن میں شریک ہوئیں۔

بیگم اقبال نے کہا، ”میں اپنے بیٹے کے لیے اس قدر وسیع حمایت دیکھ کر احسان مند ہوں۔“

رواداری اور عدم تشدد کا فروغ

بعد ازاں سہ پہر میں مشعال کے قتل کی مذمت کے لیے زائدہ میں ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا۔

قانون سازوں، سیاسی رہنماؤں، دانشوروں، وکلاء، سول سوسائٹی کے ارکان، صحافیوں، طالبِ علموں، اساتذہ اور دیگر نے زائدہ میں تقریب میں شرکت کی۔ متعدد نے ”مشعال معصوم ہے“ اور ”مشعال شہید ہے“ جیسے نعرے لگائے۔

کے پی اسمبلی کے ایک رکن سردار حسین بابک نے زائدہ میں اجتماع سے بات کرتے ہوئے کہا، ”تعلیمی اداروں اور بطورِ کل معاشرے کو بردباری، امن اور مذہبی رواداری کو فروغ دینا چاہئے تاکہ کبھی کوئی مشعال کی طرح مذہب کے نام پر قتل نہ ہو۔“

انہوں نے کہا معاشرے میں عدم رواداری، جہالت اور مذہب سے دوری کی پیداوار ہے۔

بابک نے کہا، ”اگر ہم اسلام کی درست تعلیمات اور اپنی پشتون ثقافت پر کاربند رہیں تو کوئی تشدد نہ ہو۔“

انہوں نے کہا کہ طالبِ علم، سول سوسائٹی کے ارکان، سیاسی رہنما اور عوام الناس پشاور اور کے پی کے دیگر شہروں اور اسلام آباد اور پنجاب تک سے آئے۔

ایک وفد مشعال کے اہلِ خانہ سے اظہارِ یکجہتی کے لیے افغان سفارت خانے سے زائدہ تک سفر کر کے آیا۔

انصاف کا حصول

مشعال کے والد، محمد اقبال نے زائدہ میں چہلم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا حکومت کو انصاف فراہم کرنے کے لئے اپنی بہترین کوششیں کرنی چاہئیں۔

انہوں نے بتایا،"حکومت نے قاتلوں کو گرفتار کرلیا ہے،لیکن ہم چاہتے ہیں اس پورے واقعے کے پیچھے ذمہ داروں کو گرفتار کیا جائے اور ایک یونیورسٹی میں تشدد پر اکسانے کی تحقیقات کی جائے،" انہوں نے مزید کہا کہ ان کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جہاں کسی کا بیٹا یونیورسٹی میں اس بے رحمی سے قتل نہ کیا جائے۔

انہوں نے بتایا، "ہمارے تعلیمی اداروں اور معاشرے کو امن اور رواداری کو فروغ دینا چاہیئے۔"

انہوں نے بتایا، "انصاف میرے بیٹے کو واپس نہیں لاسکتا، لیکن یہ دیگر مشعالوں [دیگر پاکستانی فرزندوں] کو بچا سکتا ہے۔"

مشعال کی بہن استوریا خان نے بتایا، حکومت کو کیمپسز میں امن قائم رکھنے کے لئے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

زائدہ میں ذرائع ابلاغ کو مشعال کا ترجمہ "مشعل" کہتے ہوئے انہوں نے بتایا، ہمارے تعلیمی اداروں میں امن ہونا چاہیئے تاکہ کوئی اور کسی اور مشعال کو نہ مار سکے۔

بہت سی سابقہ اور حالیہ سیاسی شخصیات بشمول سابق سینیٹر افراسیاب خٹک، نائب چیئرمین پاکستان بار کونسل عبداللطیف آفریدی اور دیگر نے زائدہ میں اجتماع سے خطاب کیا۔

انہوں نے مذہب کے نام پر پھیلائی جانے والی اشتعال انگیز افواہوں کو نظرانداز کرنے کے لئے زور دیا اور مشعال کے قتل کے باقی رہ جانے والے ملزم کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

اس سے قبل، اسی طرح سے صوابی کی ضلعی اسمبلی نے ان ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا اور خاندان کو ہرجانہ دینے اور یونیورسٹی کا نام مشعل خان کے نام پر تبدیل کرنے کے لئے زور دیا۔

ضلع مردان کے ضلعی پولیس افسر میاں سعید احمد نے بتایا، پولیس کی ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ میں مندرج اور/یا ویڈیو میں شناخت کیے گئے ایک کے علاوہ تمام ملزمان کو پولیس نے گرفتارکرلیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، رہ جانے والا آخری ملزم، عارف، "غالباً کے پی سے فرار" ہوچکا ہے۔

چہلم کی تقریبات نے مذہبی رواداری کو فروغ دیا

پروگریسو ڈیموکریٹک الائنس کے زیر اہتمام نکالے گئے جلوس کے شرکا نے مطلبہ کیا کہ حکومت مقدمہ کو پاکستانی فوجی عدالتوں کو منتقل کرے۔

مشعال کے چہلم سے متعلق جلوس اور تقریبات کا انعقاد 21 مئی کو کوئٹہ اور کابل میں بھی کیا گیا۔ شرکا نے معاشرے، خصوصاً تعلیمی اداروں میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ، رواداری اور امن کے لئے مزید اقدامات کا مطالبہ کیا۔

یونیورسٹی کے سات میں سے پانچ کیمپسز پیر (22 مئی) کو دوبارہ کھل گئے۔ بقیہ دو کو اس ہفتے کے آخیر میں کھولے جانے کی توقع ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500