جرم و انصاف

پاکستان کی فوجی عدالتوں پر سیاسی حمایت، تشویش

از عدیل سعید

دہشت گرد ملزمان کو 3 مارچ کو خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ مارچ میں پاکستانی قانون سازوں نے ملک کی فوجی عدالتوں کو دو سال مزید دینے کے لیے بڑی اکثریت سے ووٹ دیا تھا تاکہ دہشت گردی کے ملزم عام شہریوں پر مقدمات چلائے جائیں۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

دہشت گرد ملزمان کو 3 مارچ کو خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ مارچ میں پاکستانی قانون سازوں نے ملک کی فوجی عدالتوں کو دو سال مزید دینے کے لیے بڑی اکثریت سے ووٹ دیا تھا تاکہ دہشت گردی کے ملزم عام شہریوں پر مقدمات چلائے جائیں۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

پشاور -- پاکستان کی فوجی عدالتیں دہشت گردی کے الزامات کے ملزمان پر مقدمات چلانا جاری رکھیں گی -- ایک اقدام جس کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ یہ قومی سلامتی کے امور میں تیز رفتار مقدمات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔

قومی اسمبلی، ایوانِ زیریں، کی جانب سے فوجی عدالتوں کے احیاء کے لیے بڑی اکثریت سے ووٹ دیئے جانے کے ایک ہفتہ بعد، سینیٹ (پارلیمان کے ایوانِ بالا) نے 28 مارچ کو 28 ویں آئینی ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور کیا تھا۔

پاکستانی صدر ممنون حسین نے 31 مارچ کو اس قانون کی منظوری دی تھی، جس میں 7 جنوری سے فوری طور پر نافذ العمل، دو سال کے عرصے کے لیے فوجی عدالتوں میں توسیع کی گئی تھی۔

پاکستان نے جنوری 2015 میں دو برسوں کے لیے خصوصی فوجی عدالتیں قائم کی تھیں جن کا مقصد دہشت گردی کے ملزمان پر تیز رفتاری کے مقدمے چلانا تھا۔ ایسے مقدمات کا سول نظام میں برسوں تک کھینچے جانے کا رجحان تھا۔

اس وقت، حکومت نے سزائے موت پر اپنی یادداشت کا بھی خاتمہ کیا تھا، جس پر سنہ 2008 میں پابندی عائد کی گئی تھی۔

فیصلہ اس وقت آیا تھا جب دہشت گردوں نے دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور میں 140 سے زائد بچوں اور اساتذہ کا قتلِ عام کیا تھا۔

وسیع سیاسی، عوامی حمایت

فوجی عدالتوں کی دوبارہ تقرری کو وسیع سیاسی اور عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مزاحمت بھی ہوئی ہے۔

وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے 12 مارچ کو ریڈیو پاکستان پر ایک انٹرویو میں کہا، "فوجی عدالتیں دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کے لیے وقت کی ضرورت ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ملک کو غیر معمولی حالات درپیش ہیں اور اس لیے ان مسائل پر قابو پانے کے لیے اسے غیر معمولی فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔

وزیرِ قانون و انصاف زید حامد نے اس بیان کا اعادہ 21 مارچ کو قومی اسمبلی میں ایک تقریر میں کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوجی عدالتوں میں توسیع کا فیصلہ "غیرمعمولی صورتحال اور حالات" کے نتیجے میں کیا گیا ہے جو "مخصوص جرائم کے تیزی کے ساتھ خاتمے کے لیے خصوصی اقدامات اختیار کرنے کے تسلسل کے متقاضی ہیں۔"

گیلپ اور گیلانی پاکستانی کی جانب سے کروائے گئے رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق، کوئی 87 فیصد پاکستانی امن و امان کو بہتر بنانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوجی عدالتوں کے دوباہ قیام کے حامی ہیں۔

یہ رائے عامہ کا جائزہ 6 تا 13 مارچ کو چاروں صوبوں میں 1،833 خواتین و حضرات سے لیا گیا تھا۔

اتفاقِ رائے ایک 'بڑی کامیابی'

خیبرپختوانخوا اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) کے پارلیمانی رہنماء سرادر اورنگزیب نلوتا نے کہا، "یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ حکومت نے بل منظور کروانے کے لیے لگ بھگ تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاقِ رائے حاصل کیا ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ارکانِ پارلیمان نے اتفاق کیا کہ فوجی عدالتوں کا احیاء دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔"

نلوتا نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں، ماسوائے پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی)، نے بل کی حمایت میں ووٹ دیا۔

انہوں نے کہا، "ایک اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے، حکومت نے مختلف سیاسی جماعتوں کے مختلف قائدین کے ساتھ کئی نشستیں کیں اور کٹڑ دہشت گردوں پر مقدمات چلانے کے لیے فوجی عدالتوں کے احیاء پر انہیں قائل کیا۔"

وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے سابق سیکریٹری دفاع، پشاور کے بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا، "فوجی عدالتوں کا احیاء ایک بہت مناسب فیصلہ ہے ۔۔۔ کینوکہ ملک کو غیر معمولی صورتحال درپیش ہے۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جاری اپنی جنگ جیتنے کے لیے ایسے غیرمعمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "فوجی عدالتوں کے دو سال کے عرصے میں کچھ کٹڑ دہشت گردوں کی پھانسی دیکھنے میں آئی، اور اگر ہم بدکرداروں کو اپنی سرزمین سے نکالنا چاہتے ہیں تو ایسا کرنا ضروری ہے۔"

فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، پہلے دو برسوں میں، فوجی عدالتوں نے 274 کٹڑ دہشت گردوں کو سزاوار قرار دیا، ان میں سے 161 کو سزائے موت سنائی گئی اور 113 کو لمبی سزائیں دی گئیں، جن میں سے زیادہ تر عمر قید کی سزائیں تھیں۔

ڈان نے 13 مارچ کو خبر دی کہ ابھی تک، سزائے موت پانے والے 17 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔

انصاف کے لیے 'گمراہ' جدوجہد

تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون سازی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بین الاقوامی کمیشن برائے انصاف (آئی سی جے) ایشیاء کے ڈائریکٹر سام ظریفی نے مارچ میں ایک بیان میں کہا، "ملک میں حالیہ حملوں کی تعداد پر پورے ملک میں پائی جانے والی تشویش سے ایسا لگتا ہے کہ اسے ایک بار پھر ایک شدید خامیوں والی انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملی کی طرف گمراہ کر دیا گیا ہے جو قانون کی حکمرانی اور انصاف کی جدوجہد کو کمزور کرتی ہے۔"

انہوں نے کہا، "پاکستان پر لازم ہے کہ اس بے فائدہ حکمتِ عملی کو مسترد کرے اور اس کی بجائے عدالتی نظام کو مضبوط بنائے اور قانون کے نفاذ کو اپنے اندرونی قانون اور بین الاقوامی فرائض سے ہم آہنگ کرے۔"

ہیومن رائٹس واچ کے ایشیاء کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے مارچ میں کہا، "پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پرتشدد حملے کرنے والوں کو سزائیں دے، لیکن خفیہ، حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی فوجی عدالتوں پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں کہ آیا انصاف ہو رہا ہے یا نہیں۔"

انہوں نے کہا، "پاکستان کے فوجداری انصاف کے نظام میں اعتماد پیدا کرنے اور قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے دہشت گرد حملے کرنے والوں کو آزاد اور غیر جانبدار سول عدالتوں کے سامنے لایا جائے۔"

ڈان نے 21 مارچ کو خبر دی، "ناقدین کی بنیادی تشویش فوجی عدالتوں کے مقدمات میں رازداری پر تھی: کسی کو نہیں معلوم کہ مجرم کون ہیں، ان پر کیا الزامات لگائے گئے، یا ملزم کے وکیلِ صفائی کو الزامات کے خلاف سنا گیا۔"

ایسی تنقید اور تشویشوں کے جواب میں شاہ نے کہا، "فوجی عدالتوں کے قیام کے پسِ پشت مقصد کٹڑ دہشت گردوں کے مقدمات کو نمٹانا ہے جو دیگر عدالتیں نہیں نمٹا سکتیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500