جرم و انصاف

پاکستانیوں نے ہجوم کے ہاتھوں مشال خان کے ماورائے عدالت قتل کو مسترد کر دیا

جاوید خان

15 اپریل کو اسلام آباد میں مشال خان کے قتل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پاکستانی سول سوسائٹی کے ارکان اور یونیورسٹی کے طالبِ علم نعرے لگا رہے ہیں اور پلے کارڈ لہرا رہے ہیں۔ [فاروق نعیم/اے ایف پی]

15 اپریل کو اسلام آباد میں مشال خان کے قتل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پاکستانی سول سوسائٹی کے ارکان اور یونیورسٹی کے طالبِ علم نعرے لگا رہے ہیں اور پلے کارڈ لہرا رہے ہیں۔ [فاروق نعیم/اے ایف پی]

پشاور — پاکستانی، مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں صحافت کے ایک 23 سالہ طالبِ علم مشال خان کے اہلِ خانہ کے ساتھ یکجہتی سے کھڑے ہیں، جو 13 اپریل کو ایک پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں توہین رسالت کے الزام پرماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔

ملک بھر اور بیرونِ ملک سے ہزاروں افراد مشال کے اہلِ خانہ کے لیے محبت اور تعظیم کے پیغام بھیج رہے ہیں، اور حکومت کے زیرِ انتظام قاتلوں کو مثالی سزا دیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں—جن میں سے متعدد حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر پھیل جانے والی ویڈیوز میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

مقامی میڈیا نے خبر دی کہ خیبرپختونخوا (کے پی) پولیس نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس مقدمہ کا نوٹس لینے کے دو روز بعد منگل (18 اپریل) کو سپریم کورٹ میں اس قتل پر ایک تفصیلی رپورٹ داخل کرائی۔

نیوز رپورٹس کے مطابق، پولیس نے 22 ملزمان کو گرفتار کیاجنہیں اس واقعہ میں ملوث مانا جاتا ہے جس میں سینکڑوں طالبِ علموں نے مشال کو برہنہ کیا، اسے زدوکوب کیا، گولیاں ماریں اور اسے اس یونیورسٹی ہاسٹل کی دوسری منزل سے نیچے پھینک دیا جہاں وہ مقیم تھا۔

14 اپریل 2017 کو صوبہ خیبر پختونخوا، ضلع صوابی میں پاکستانی عزیز اور رہائشی مشال خان کی میّت لے جا رہے ہیں۔ [ایس ٹی آر/اے ایف پی]

14 اپریل 2017 کو صوبہ خیبر پختونخوا، ضلع صوابی میں پاکستانی عزیز اور رہائشی مشال خان کی میّت لے جا رہے ہیں۔ [ایس ٹی آر/اے ایف پی]

مقامی پولیس نے کہا کہ مشال اور بری طرح سے زدوکوب کیے جانے والے ایک اور طالبِ علم عبداللہ پر ”آن لائن توہینِ رسالت سے متعلقہ مواد شائع کرنے“ کا الزام تھا۔

پولیس: توہینِ رسالت کے عدم شواہد

کے پی انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین خان محسودنے صحافیوں کو بتایا، ”پولیس نے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا جائزہ لیا ہے، لیکن ایسی کوئی شئے نہیں ملی جس سے یہ اخذ کیا جا سکے کہ مشال خان توہینِ رسالت کا مرتکب ہوا،“ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو تحقیقات کرنے کا کہا گیا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی کہا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے یہ رائے قائم کی جا سکے کہ مشال نے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا ہے۔

انہوں نے 15 اپریل کو کے پی اسمبلی کو بتایا، ”پولیس نے ہدف بننے والے کا موبائل فون ریکارڈ چیک کیا ہے لیکن اس میں کچھ بھی خلافِ اسلام نہ تھا۔“

انہوں نے کہا، ”حکومت نے پہلے ہی اس وحشیانہ جرم کی ایک عدالتی انکوائری کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے،“ انہوں نے مزید کہا کہ ایسی بربریّت کو برداشت نہ کیا جائے گا۔

ضلع مردان کے پولیس سربراہ میاں سعید احمد نے کہا کہ تمام تر پولیس فورس اس مقدمہ میں ملوث تمام کو گرفتار کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

احمد نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”یونیورسٹی کے چھ ملازمین سمیت 22 ملزمان کی گرفتاری کے علاوہ یونیورسٹی کے چار اعلیٰ عہدیداران کو بھی شاملِ تفتیش کیا گیا ہے۔“

'سازش'

مرکزی ملزم وجاہت نے عدالت میں اپنے باقاعدہ بیان میں کہا کہ اسے 13 اپریل کو یونیورسٹی کے چیئرمین آفس میں آنے کا کہا گیا، جہاں اساتذہ، عہدیداران اور طالبِ علموں سمیت 15 سے 20 افراد ”مشال خان کے کیس کا فیصلہ کرنے کے لیے“ ایک اجلاس میں جمع تھے۔

پاکستان ٹوڈے نے خبر دی کہ اس کے بیان کے مطابق، وجاہت نے کہا کہ مشال ”اکثر توہینِ رسالت کا مرتکب ہوتا“۔

وجاہت نے کہا کہ اس نے ”بذاتِ خود“ مشال، اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے دوست عبداللہ اور زبیر کو اسلام اور حضرت محمّدؐ کے ”خلاف بولتے“ سنا۔

یونیورسٹی حکام کے سامنے اس کی گواہی کے بعد پیش آنے والے اس سانحہ پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے وجاہت نے کہا کہ یونیورسٹی کو یہ اجلاس بلانا ہی نہیں چاہیئے تھا۔

اس نے کہا، ”اگر مجھے [مشال اور اس کے دوستوں کے خلاف] اس سازش کا علم ہوتا، تو میں یونیورسٹی نہ آتا۔ اگر میں ان کے خلاف بیان نہ دیتا تو ہجوم منتشر ہو گیا ہوتا۔“

اس نے کہا، ”اس پوری واردات میں میرا کردار یہ ہے کہ میں نے توہینِ رسالت میں مشال کے ملوث ہونے سے متعلق ایک بیان دیا، جس پر میں پشیمان ہوں، کیوں کہ افراد یا یونیورسٹی انتظامیہ نہیں بلکہ قانونِ ارضی کو ایسے امور سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔“

دوست: ہم بے قصور تھے

ڈان نے خبر دی کہ عبداللہ نے کہا کہ اسے بھی شعبۂ صحافت میں بلایا گیا اور یہ گواہی دینے کا کہا گیا کہ مشال توہینِ رسالت کا مرتکب ہوا اور اسلام کے خلاف ”شیطانی منصوبے“ رکھتا ہے۔

عبداللہ نے اپنے بیان میں کہا، ”لیکن میں نے انکار کر دیا، کیوں کہ میں نے مشال کے منہ سے کبھی کوئی غیر جمہوری، ہتک آمیز یا توہینِ رسالت پر مبنی لفظ نہیں سنا۔“

مشال کے خلاف الزامات اور اس کے خلاف بولنے سے عبداللہ کے انکار نے مبینہ طور پر طالبِ علموں کو مشتعل کر دیا، اور تین اساتذہ نے، مبینہ طور پر اسے محفوظ رکھنے کے لیے، اسے ایک بیت الخلاء میں بند کر دیا۔

جب مشتعل ہجوم تشکیل پا گیا، انہوں نے بیت الخلاء کا دروازہ توڑ دیا اور عبداللہ کو زدوکوب کرنے لگے، یہاں تک کہ اسے مقامی پولیس اور چند ہمدرد طالبِ علموں نے بچایا۔

اسی اثناء میں، مشال یونیورسٹی ہاسٹل میں اپنے کمرے میں تھا، جہاں ہجوم نے حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا۔

عبداللہ نے انکشاف کیا کہ چند روز قبل اس نے، مشال نے اور دیگر دوستوں نے بھاری معاوضوں، سہولیات کی قلّت اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف بات کی تھی۔

اس نے پولیس کو اپنے بیان میں کہا، ”مجھے نہ صرف اپنے لیے بلکہ مشال خان کے لیے بھی انصاف چاہیئے کیوں کہ ہم بے قصور تھے۔“

مشال کے لئے انصاف

سینکڑوں افراد نے مشال کی قبر اور ضلع صوابی زیدا میں ان کے آبائی گھر پر فاتحہ خوانی اور اپنی حمایت کے اظہار کے لئے حاضری دی۔

صوابی کے ضلعی پولیس افسر شعیب اشرف نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم نے خاندان کو تحفظ فراہم کیا ہے کیونکہ لوگوں کی کثیر تعداد تعزیت کے لئے حاضری دے رہی ہے۔"

مشل کے لئے انصاف کے مطالبے پر پاکستان بھر سے لوگوں نے زیدا اور دیگر شہروں میں بھی جلوس نکالے۔

قومی وطن پارٹی کی ایک رہنما نیلم گگیانی جنہوں نے بہت سی خواتین سماجی کارکنوں کے ساتھ زیدا کا دورہ کیا، پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم مشال خان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے گئے اور بعد ازاں بہادر خاندان کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کے اظہار کے لئے ان کے گھر کا دورہ کیا۔"

پاکستانی سیاسی رہنما جو واقعے پر الزامات کی حساسیت کی وجہ سے پہلے اس پر تبصرہ کرنے سے گریزاں تھے بعد میں اس کی مذمت کرنا شروع ہوگئے۔

پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان اور بہت سے دیگر سیاسی رہنماؤں نے تشدد کی مذمت کی اور انصاف کے لئے جدوجہد کا وعدہ کیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمران خان نے بتایا، " مردان میں طالب علم پر قابل مذمت تشدد " کے بارے میں وہ کے پی پولیس کے سربراہ سے رابطہ میں تھے۔

انہوں نے ٹوئیٹر پر بتایا، "جنگل کا قانون نہیں چل سکتا۔"

خان نے منگل (18اپریل) کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا، ہم اس کو ایک سبق کے طور پر لیں گے اور یقینی بنائیں گے کہ دوبارہ کوئی توہین رسالت کے قانون کو لوگوں کے قتل میں غلط استعمال نہ کرے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے "مشال خان کے بے رحمانہ قتل" پر گہرے دکھ کا اظہار اور مجرموں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

جمعیت علما اسلام کے دھڑے (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے 15 اپریل کو نامہ نگاروں کو بتایا، کسی کو بھی صرف الزامات کی بنیاد پر قتل نہیں کیا جانا چاہیئے۔

پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے مارچ میں حکام کو سوشل میڈیا پر تمام توہین آمیز مواد ہٹانے یا روکنے کا حکم دیا تھا اور ایسا مواد شائع کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا عزم ظاہر کیا تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

مشال خان کا قتلِ عمد نہایت قابلِ مذمّت ہے۔

جواب