دہشتگردی

پاکستان کا پولیس پر داعش کے حملے کے بعد دہشت گردی کی 'نئی لہر' پر قابو پانے کا عزم

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

6 مارچ کو سیکیورٹی اہلکار صوبہ بلوچستان کے ضلع کچھی میں دھدر کے قریب پولیس وین پر داعش کے خودکش حملے کے منظر کا جائزہ لے رہے ہیں۔ [محمد اسلم/اے ایف پی]

6 مارچ کو سیکیورٹی اہلکار صوبہ بلوچستان کے ضلع کچھی میں دھدر کے قریب پولیس وین پر داعش کے خودکش حملے کے منظر کا جائزہ لے رہے ہیں۔ [محمد اسلم/اے ایف پی]

کوئٹہ – حکام نے کہا ہے کہ پیر (6 مارچ) کو ایک خودکش بمبار نے بلوچستان کانسٹیبلری وین پر حملے میں 9 افراد کو ہلاک اور 13 دیگر کو زخمی کر دیا، جس کی ذمہ داری بعد ازاں " دولتِ اسلامیہ" (داعش) نے قبول کی۔

وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ دھماکہ صبح 10 بجے بولان کے سبی اور کچھی اضلاع سے متصل علاقے میں قمبری پُل پر ہوا۔

ڈان کی خبر کے مطابق، انہوں نے کہا کہ پولیس وین دھدر سے کوئٹہ واپس آ رہی تھی، جہاں اہلکاروں کو سبی ثقافتی میلے میں فرائض انجام دینے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔

کچھی کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس محمود نوتیزئی نے کہا کہ یہ افسران ایک ہفتہ طویل مویشیوں کی نمائش کی حفاظت کر رہے تھے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو (بائیں سے دوسرے) 6 مارچ کو کوئٹہ کے ایک ہسپتال میں ضلع کچھی میں داعش کے خودکش حملے میں زخمی ہونے والے ایک پولیس اہلکار سے بات کرتے ہوئے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو (بائیں سے دوسرے) 6 مارچ کو کوئٹہ کے ایک ہسپتال میں ضلع کچھی میں داعش کے خودکش حملے میں زخمی ہونے والے ایک پولیس اہلکار سے بات کرتے ہوئے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

ثناء اللہ نے کہا، "وین ایک موٹر سائیکل سے ٹکرا گئی جسے ایک خودکش بمبار چلا رہا تھا۔ اس کے نتیجے میں نو افراد شہید ہو گئے، جن میں ایک عام شہری بھی شامل تھا"۔

انہوں نے کہا کہ زخمیوں میں سے کم از کم تین کی حالت تشویشناک ہے۔

اس کے بعد کی تصاویر میں پولیس ٹرک کو سڑک پر الٹا دکھایا گیا جس کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔

اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں ثناء اللہ نے زور دے کر کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بشمول پولیس اور انسدادِ دہشت گردی کے محکمے پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ معاشی صورتحال اور جاری کفایت شعاری کے اقدامات کے باوجود، "امن و امان برقرار رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کیے جانے والے وسائل میں کوئی کمی نہیں کی گئی"۔

انہوں نے وعدہ کیا کہ قوم کے پختہ عزم کے ساتھ ہم دہشت گردی کی اس نئی لہر پر جلد قابو پالیں گے۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد عناصر بزدلانہ کارروائیوں کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔

ایک بیان میں بزنجو کا کہنا تھا کہ ایسی تمام سازشوں کو عوام کے تعاون سے ناکام بنایا جائے گا۔ شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

داعش نے پیر کی رات اپنے پراپیگنڈہ بازو عماق کی جانب سے شائع ہونے والے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی ملک کو غیر مستحکم کرنے کے مذموم ایجنڈے کا حصہ ہے۔

اے پی پی نے خبر دی کہ صدر عارف علوی نے اس دوران اس عزم کا اظہار کیا کہ "دہشت گرد اپنے مذموم ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہوں گے"۔

حملوں میں اضافہ

سیکیورٹی فورسز بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملوں سے برسوں سے لڑ رہی ہیں۔.

اگست 2021 میں افغانستان میں سیاسی تبدیلیوں کے بعد سے پاکستان میں حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے سرحد کے ساتھ عسکریت پسند گروہوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے جنہوں نے سکیورٹی فورسز کو تیزی سے نشانہ بنایا ہے۔

گزشتہ ماہ ساحلی شہر کراچی میں ایک پولیس کمپاؤنڈ پر ٹی ٹی پی کے خودکش سکواڈ کے حملے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

چند ہفتے پہلے، پشاور میں ایک پولیس مسجد میں بم دھماکے میں 80 سے زائد اہلکار ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے,بم دھماکے کی ذمہ داری بعض اوقات ٹی ٹی پی سے وابستہ گروپ نے قبول کی تھی.

اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے جنگ دفاعی مطالعات کے مطابق، جولائی 2018 کے بعد جنوری سب سے زیادہ خونریز مہینوں میں سے ایک تھا: ملک بھر میں کم از کم 44 عسکریت پسند حملوں میں 134 افراد ہلاک اور 254 زخمی ہوئے۔

اسلام آباد کے مرکز برائے تحقیق و دفاعی مطالعات کے تجزیہ کار امتیاز گل نے کہا کہ عسکریت پسند گروہ "تمام فرنچائزز ہیں جو ایک مقصد کے پابند ہیں: سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا اور پاکستان میں خوف اور غیر یقینی کا احساس پیدا کرنا"۔

بلوچستان، جس کی سرحدیں افغانستان اور ایران دونوں سے ملتی ہیں، پاکستان کا سب سے بڑا، سب سے کم آبادی والا اور غریب ترین صوبہ ہے۔

اس کے پاس وافر قدرتی وسائل ہیں، لیکن مقامی باشندوں نے طویل عرصے سے ناراضگی کا اظہار کیا ہے، اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اس کی دولت کا مناسب حصہ نہیں ملتا۔

بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے، کے تحت چینی سرمایہ کاری کے سیلاب سے کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے، جس کے بارے میں صوبے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ان تک رسائی نہیں ہوئی ہے۔

چین 54 بلین ڈالر کے منصوبے کے تحت اس علاقے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے جسے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی-پیک) کے کہا جاتا ہے، اس کے مغربی سنکیانگ خطے اور پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے درمیان بنیادی ڈھانچے، توانائی اور ٹرانسپورٹ روابط کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500