سلامتی

لاہور میں خونریز دھماکے کی ذمہ داری بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے قبول کیے جانے کے بعد پاکستان چوکس

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

سیکیورٹی اہلکار 20 جنوری کو لاہور کے ایک مصروف خریداری مرکز میں بم دھماکے کی جگہ کا معائنہ کرتے ہوئے جس میں تین افراد جان بحق اور 22 دیگر زخمی ہوئے تھے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

سیکیورٹی اہلکار 20 جنوری کو لاہور کے ایک مصروف خریداری مرکز میں بم دھماکے کی جگہ کا معائنہ کرتے ہوئے جس میں تین افراد جان بحق اور 22 دیگر زخمی ہوئے تھے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

لاہور -- مشرقی میگا سٹی لاہور میں ایک بم سے تین افراد کے جاں بحق اور 22 کے زخمی ہونے کے ایک دن بعد، پولیس نے کہا ہے کہ جمعہ (21 جنوری) کے روز پاکستان کے دارالحکومت میں سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

حکومت اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان جنگ بندی ختم ہونے پر، دسمبر کے بعد سے مُلک میں مسلسل دھماکے اور حملے ہو رہے ہیں۔

لیکن -- لاہور کے ایک مصروف خریداری مرکز میں -- جمعرات کے روز ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) نے قبول کی ہے، جو کہ پاکستان کے سب سے بڑے لیکن غریب ترین صوبے، بلوچستان سے ابھرنے والے کئی علیحدگی پسند گروہوں میں سب سے نیا گروہ ہے۔

نسلی علیحدگی پسند گروہ صوبے میں برسوں سے بغاوت کر رہے ہیں، شاکی ہیں کہ انہیں صوبے کی گیس اور معدنی دولت کا مناسب حصہ نہیں ملتا۔

20 جنوری کو لاہور کے ایک مصروف خریداری مرکز میں ایک بم دھماکے، جس میں تین افراد ہلاک اور 22 زخمی ہو گئے تھے، کے بعد ایک نیم پیشہ ور طبی اہلکار ایک زخمی شخص کا ہسپتال میں علاج کرتے ہوئے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

20 جنوری کو لاہور کے ایک مصروف خریداری مرکز میں ایک بم دھماکے، جس میں تین افراد ہلاک اور 22 زخمی ہو گئے تھے، کے بعد ایک نیم پیشہ ور طبی اہلکار ایک زخمی شخص کا ہسپتال میں علاج کرتے ہوئے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

پولیس کے ترجمان نعیم اقبال نے اے ایف پی کو بتایا کہ دارالحکومت اسلام آباد میں اور درجنوں سفارت خانوں اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی عمارتوں پر پہرہ سخت کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ وردی میں ملبوس اور سادہ کپڑوں والے افسران پورے شہر میں، خاص طور پر پُرہجوم علاقوں جیسے کہ بازاروں میں گشت کریں گے۔

مزید حملوں کی دھمکی

لاہور میں، جمعرات کو ہونے والے دھماکے میں ایک اور زخمی کے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ جانے کے بعد مرنے والوں کی تعداد سرکاری طور پر تین ہو گئی ہے۔

جاں بحق ہونے والوں میں ایک نو سالہ بچہ بھی شامل ہے۔

لاہور پولیس کے ترجمان رانا عارف نے اے ایف پی کو بتایا، "ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ایک موٹر سائیکل پر نصب ٹائم بم دھماکے کی وجہ بنا۔"

دھماکہ قدیم لاہور کے مصروف خریداری مرکز انار کلی میں ہوا، جس سے متعدد موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچا اور مارکیٹ میں نصب کھوکھوں کو نقصان پہنچا۔

وزیر اعظم عمران خان کے دفتر کے ترجمان نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے "قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع" پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

بی این اے کی میڈیا شاخ کی طرف سے پوسٹ کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "دھماکے کا اصل ہدف پولیس کے اہلکار تھے جن میں بینک کے کارکن بھی شامل تھے جو کہ دھماکے میں ہلاک یا زخمی ہو گئے تھے۔"

بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ "ہم مزید حملے کریں گے اور انہیں پاکستان کے تمام تجارتی شہروں تک پھیلا دیں گے۔"

معدنیات سے مالا مال بلوچستان، جو افغانستان اور ایران کی سرحد سے متصل ہے، جغرافیائی طور پر پاکستان کے چاروں صوبوں میں سب سے بڑا ہے، لیکن اس کے تقریباً سات ملین باشندے طویل عرصے سے شاکی ہیں کہ انہیں صوبے کی گیس اور معدنی دولت کا مناسب حصہ نہیں ملتا.

چین 54 بلین ڈالر کے منصوبے کے تحت اس علاقے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے جسے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے نام سے جانا جاتا ہے، جس سے مغربی بعیدی سنکیانگ کے علاقے اور پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے درمیان بنیادی ڈھانچے، بجلی اور نقل و حمل کے روابط کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔

بلوچ علیحدگی پسندوں نے ماضی میں -- چینی اثر و رسوخ کے خلاف مقامی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے -- سی پیک منصوبوں پر کئی حملوں کا دعویٰ کیا تھا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ بیجنگ مقامی وسائل کا استحصال کر رہا ہے اور اسے اپنے اقدامات کے مقامی آبادی پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں کوئی فکر نہیں ہے۔

گزشتہ سال کے آخر میں گوادر میں مظاہرین نے مقامی اور چینی ٹرالروں کی جانب سے گہرے سمندر میں غیر قانونی ماہی گیری اور سی پیک منصوبوں کی طرف جانے والی حفاظتی چوکیوں پر مقامی لوگوں کو ہراساں کیے جانے کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔

جماعت اسلامی پاکستان کے مقامی رہنماء مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں مظاہرین نے پانی اور بجلی کی قلت کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا اور گوادر میں ممکنہ باڑ لگانے کی مخالفت کا اظہار کیا جس کا مقصد چینی امداد سے چلنے والے منصوبوں کو بلوچ علیحدگی پسندوں سے بچانا ہے جو سی پیک کے مخالفت ہیں۔

ٹی ٹی پی کا فساد

دریں اثنا، دسمبر کے بعد جب سے حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بندی ختم ہو ئی ہے ، پاکستان میں پولیس پر دھماکے اور حملے ہو رہے ہیں.

ٹی ٹی پی نے حالیہ ترین حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

اس ہفتے کے شروع میں، ٹی ٹی پی نے کہا تھا کہ وہ پیر کے روز اسلام آباد میں ایک ہلاکت خیز فائرنگ کے تبادلے کے لیے ذمہ دار ہے -- جو کہ سخت پہرے والے دارالحکومت میں عسکریت پسندوں کا ایک نادر حملہ تھا۔

ٹی ٹی پی کے دو مسلح افراد کی موٹر سائیکل سے فائرنگ سے پولیس چوکی پر ایک پولیس افسر جاں بحق اور دو زخمی ہو گئے تھے۔

پولیس نے کہا کہ دونوں حملہ آور مارے گئے، اور وزیر داخلہ نے بعد میں مزید خونریزی کے امکان سے خبردار کیا تھا۔

گزشتہ سال کے آخر میں حکومتِ پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ اس نے ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک ماہ طویل جنگ بندی کی تھی، لیکن امن مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کے بعد یہ 9 دسمبر کو ختم ہو گئی تھی۔

ٹی ٹی پی پر ملک بھر میں سینکڑوں خودکش دھماکوں اور اغوا کی وارداتوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس نے ملک کے ناہموار قبائلی پٹی کے وسیع حصوں پر اپنا قبضہ جمایا تھا، جس میں ایک بنیاد پرست قسم کی اسلامی شریعت نافذ کی گئی تھی۔

لیکن سنہ 2014 میں پشاور کے ایک سکول میں 150 سے زائد بچوں اور اساتذہ کے قتل عام کے بعد ، پاکستانی فوج نے بڑی تعداد میں فوجی دستے ٹی ٹی پی کے گڑھوں میں بھیجے اور تحریک کو کچل دیا، جس سے اس کے جنگجو افغانستان کی طرف پسپائی پر مجبور ہو گئے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500