دہشتگردی

پاکستانیوں کی جانب سے مقتول ایرانی جنرل سلیمانی کی یادگار پر شدید تنقید

از زرق خان

کراچی کی ایک سڑک پر نصب ایک بینر پر مقتول ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی کی دوسری برسی کے موقع پر ان کی قصیدہ خوانی کی گئی ہے۔ [زرق خان]

کراچی کی ایک سڑک پر نصب ایک بینر پر مقتول ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی کی دوسری برسی کے موقع پر ان کی قصیدہ خوانی کی گئی ہے۔ [زرق خان]

اسلام آباد -- مذہبی رہنماؤں اور امن کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام کو چاہیے تھا کہ وہ ایران کو ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی کی دوسری برسی کے موقع پر یادگاری تقریبات کی میزبانی کرنے کی اجازت نہ دیتے کیونکہ ان پر وہ فرقہ وارانہ نفرت اور دہشت گردی کو ہوا دینے کا الزام لگاتے ہیں۔

سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) کی قدس فورس کا کمانڈر سلیمانی عراق، شام، لبنان، یمن اور افغانستان سمیت پورے خطے میں متعدد پراکسی جنگوں میں اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کا منصوبہ ساز تھا۔

وہ 3 جنوری 2020 کو بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔

اس سال، اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے اور پاکستان بھر میں اس کے قونصل خانوں نے ملک بھر میں خاص طور پر کراچی، کوئٹہ اور لاہور میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا اور سرمایہ فراہم کیا۔

4 جنوری کو کراچی میں ایرانی قونصل خانے کے زیر اہتمام ایک تقریب میں ایک مقرر قاسم سلیمانی کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے۔ [کراچی میں ایرانی قونصل خانہ]

4 جنوری کو کراچی میں ایرانی قونصل خانے کے زیر اہتمام ایک تقریب میں ایک مقرر قاسم سلیمانی کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے۔ [کراچی میں ایرانی قونصل خانہ]

مثال کے طور پر، کراچی میں، پاکستانی مذہبی جماعتوں کے اتحاد، ملی یکجہتی کونسل (ایم وائے سی) کی نمائندگی کرنے والے مذہبی رہنماؤں نے 4 جنوری کو ایرانی قونصل خانے کے ثقافتی حصے کے زیرِ اہتمام ایک تقریب میں سلیمانی کی قصیدہ خوانی کی۔

مختلف نامعلوم تنظیموں نے پاکستانی شہروں کی اہم سڑکوں پر سلیمانی کی شان میں سینکڑوں بینرز بھی آویزاں کیے۔

کراچی میں ایک عالمِ دین مولانا عبدالرشید نے کہا کہ پاکستانی حکام کو سلیمانی کی تعریف کرنے والے واقعات اور بینرز کا نوٹس لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سلیمانی پاکستان میں فرقہ وارانہ بدامنی پیدا کرنے کا ذمہ دار تھا، اور اس نے بشار الاسد کی شامی حکومت کی حمایت کی، جس نے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔

رشید نے کہا، "یادگاری تقریبات کا انعقاد... پاکستان میں تہران کی جانب سے دہشت گرد کو مسلم دنیا کے ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔"

رشید کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں ایرانی سفارتی مشن ایم وائے سی کے رہنماؤں کو کراچی میں ہونے والی تقریبات میں شرکت کے لیے پیسے ادا کرتے ہیں۔

جنوری 2020 میں ایم وائے سی کے رہنماؤں کو تہران کا دورہ کرنے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جو انہوں نے سلیمانی کے قتل پر تعزیت کرنے کے لیے کیا تھا۔

رشید نے کہا، "پاکستان کے مسلمان سلیمانی کی عزت نہیں کرتے، جنہوں نے سعودی عرب اور شام کی الاسد حکومت پر حملے میں یمن کے حوثی باغیوں کی بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنے میں مدد کی۔"

سینیٹر اور جمعیت تحریکِ اہلحدیث پاکستان (جے ٹی اے پی)، جو اسی وجہ سے روابط منقطع کرنے سے قبل این وائے سی کا ہی ایک سابقہ گروپ تھا، کے ڈائریکٹر ساجد میر کے مطابق، ایران ایم وائے سی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور اس نے فورم کے ایجنڈے کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔

میر نے کہا، "[سلیمانی کے قتل پر تعزیت کے لیے] ایران کا دورہ کرنے والا وفد پاکستان اور اس کی مذہبی جماعتوں کی نمائندگی نہیں کرتا۔ یہ محض چند مذہبی جماعتوں کے چند افراد کا ایک چھوٹا سا گروہ ہے۔"

فرقہ واریت کو ہوا دینا

اپنی موت سے پہلے، سلیمانی آئی آر جی سی اور ایرانی حکومت کے لیے پراکسی کے طور پر کام کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ، افغانستان اور پاکستان میں شیعہ ملیشیا بنانے اور تعینات کرنے کا ذمہ دار تھا۔

خاص طور پر، سلیمانی زینبیون بریگیڈ کا پشت پناہ تھا، جو پاکستانیوں پر مشتمل ایک ملیشیا ہے جسے الاسد کی حکومت اور دیگر جگہوں پر شام میں لڑنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔

اس نے اسی طرح کے مقاصد کے لیے پڑوسی ملک افغانستان میں فاطمیون ڈویژن کی بنیاد رکھی تھی۔

اس طرح کے یونٹوں اور ساتھ ہی ساتھ ایران کی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیاؤں کی ایک بڑی تعداد کو استعمال کرتے ہوئے، سلیمانی نے شام میں لڑائی میں الاسد کی افواج کو مؤثر طریقے سے تقویت دی۔

پاکستان کے حساس اداروں نے شیعہ زائرین کو ایران کی جانب سے یونٹ میں بھرتی کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق، پاکستانی حکام نے تنظیم کے ساتھ مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں درجنوں شیعہ نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔

شام میں گزشتہ برسوں کے دوران ہزاروں پاکستانی اور افغان شیعہ جنگجوؤں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاع ہے، زیادہ تر ایران کے قریبی اتحادی الاسد کی حکومت کی حمایت کرنے والی کارروائیوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔

کراچی میں مقیم قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک اہلکار، جو بریگیڈ کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے، کے مطابق تہران کی مالی مدد سے، زینبیون بریگیڈ نے سلیمانی کی شان میں اردو میں کاغذی شکل میں اور قابلِ طباعت اظہاری وضع (پی ڈی ایف) دونوں میں کئی کتابچے تقسیم کیے ہیں۔

اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک اور کتابچے، "ہم تیرے عباس یا زینب [اے زینب، ہم تیرے بچے ہیں]"، میں شام میں مارے گئے زینبیون بریگیڈ کے ارکان کی تعریف کرتے ہوئے تفصیلی پروفائل تھے۔

اہلکار نے کہا، "کچھ پروفائلوں میں، مقتول پاکستانی شیعہ نوجوانوں کی سلیمانی سے ملاقات کا ذکر کیا گیا تھا"۔

فرقہ واریت کو ہوا دینا

سلیمانی کے لیے وقف کی گئی یادگاریں خصوصاً پاکستانی حکام کی جانب سے ایران کے حمایت یافتہ شیعہ گروہوں، بشمول زینبیون بریگیڈ اور سپاہِ محمد پاکستان (ایس ایم پی) کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی کوششوں کے برعکس ہیں.

پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تہران کی پشت پناہی کے حامل شیعہ عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے جن پر پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے، سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو ہوا دینے اور نوجوانوں کو بیرون ملک، خصوصاً شام میں لڑنے کے لیے بھیجنے کا الزام ہے۔

نومبر میں، پاکستان نے سنہ 2011 میں کراچی میں ایک سعودی سفارت کار کے قتل، جس کا تعلق حکام نے تہران کی حمایت یافتہ ایس ایم پی سے جوڑا تھا، کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔

16 مئی 2011 کو کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے سعودی قونصل خانے کے اہلکار حسن القحطانی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

گزشتہ اگست میں، حکام نے کراچی کے علاقے عائشہ منزل میں ایس ایم پی کے ایک مبینہ رکن سید علی رضا نقوی کی گرفتاری کا بھی اعلان کیا تھا۔

سندھ کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی کے ایک افسر اسرار اعوان کے مطابق، نقوی گزشتہ تین دہائیوں سے کراچی میں علمائے دین اور حریف سنی فرقوں کے ارکان کے قتل میں ملوث تھا۔

اعوان نے اس وقت کہا، "گرفتار عسکریت پسند کا تعلق کالعدم ایس ایم پی سے ہے اور وہ زینبیون بریگیڈ کے جنگجوؤں سے رابطے میں تھا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500