دہشتگردی

بلوچستان میں متعدد حفاظتی چھاپے خطے میں عسکریت پسندی میں اضافے کی طرف اشارہ کرتے ہیں

از عبدالغنی کاکڑ

5 اکتوبر کو چمن میں افغان سرحد کے پاکستانی حصے پر پاکستانی فوجی ایک بکتر بند گاڑی کے ساتھ پہرہ دیتے ہوئے جبکہ لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگست میں افغانستان پر طالبان کا قبضہ کچھ عسکریت پسند گروہوں کے مزید فعال ہونے کا باعث بنا ہے۔ [اے ایف پی]

5 اکتوبر کو چمن میں افغان سرحد کے پاکستانی حصے پر پاکستانی فوجی ایک بکتر بند گاڑی کے ساتھ پہرہ دیتے ہوئے جبکہ لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگست میں افغانستان پر طالبان کا قبضہ کچھ عسکریت پسند گروہوں کے مزید فعال ہونے کا باعث بنا ہے۔ [اے ایف پی]

کوئٹہ -- حکام کا کہنا ہے کہ کوئٹہ اور صوبے کے دیگر حصوں میں حملوں میں حالیہ اضافے کے جواب میں صوبہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز نے مختلف کالعدم گروہوں کے دو درجن سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

کوئٹہ کے مقامی ایک اعلیٰ دفاعی اہلکار محسن جاوید نے کہا، "مخبری کی بنیاد پر بلوچستان کے علاقوں مستونگ، ہرنائی اور پنجگور میں چھاپے مارے گئے تھے۔"

انہوں نے مزید کہا، "دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے بھاری ہتھیار، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا گیا۔"

جاوید نے بتایا کہ 23 اکتوبر کو ضلع مستونگ کے علاقے روشی میں سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے نو ارکان کو ہلاک کر دیا، ان کا مزید کہنا تھا کہ عسکریت پسند صوبے میں سیکیورٹی فورسز اور سرکاری چھاؤنیوں پر حالیہ کئی حملوں میں ملوث تھے۔

انہوں نے کہا کہ پہاڑی کیمپ جہاں چھاپہ مارا گیا تھا اسے تربیت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ نے ایک بیان میں کہا کہ اسی روز، فرنٹیئر کور جنوبی ونگ نے ہرنائی کے علاقے جمبرو میں مخبری کی بنیاد پر ایک الگ کارروائی کی، جس میں بی ایل اے کے ایک کمانڈر سمیت چھ عسکریت پسند مارے گئے۔

22 اکتوبر کو مستونگ میں ایک اور کارروائی کے دوران، انسداد دہشت گردی فورسز نے "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے نو ارکان کو اپنے ایک ذریعے سے خفیہ اطلاع ملنے پر ہلاک کر دیا۔

دریں اثنا، گوادر کے مقامی ایک دفاعی اہلکار طفیل بلوچ کے مطابق، 22 اکتوبر کو ضلع پنجگور کے مضافات میں ایک الگ چھاپے میں، سیکیورٹی فورسز نے سیکیورٹی فورسز پر متعدد حملوں میں ملوث کالعدم گروہ کے کم از کم دو مشتبہ افراد کو ہلاک کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند گروہ برسوں سے بلوچستان کے دیگر علاقوں کے علاوہ پنجگور میں تباہی مچاتے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، "بلوچستان کی مکران کی پٹی ایرانی سرحد سے متصل ہے، لہٰذا عسکریت پسند اکثر حملے کرنے کے بعد ایران فرار ہو جاتے ہیں.

ان کا کہنا تھا، "بحالیٔ امن حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ حالیہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی کارروائیاں بیان کردہ حکمت عملی کا حصہ ہیں۔"

بلوچ نے کہا کہ حکام ان گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہیں جو بیرونی لوگوں کے فائدے کے لیے خطے میں امن کو خراب کر رہے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ "جو لوگ بے گناہ لوگوں کا خون بہاتے ہیں وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "بغاوت کو ختم کیے بغیر یہاں ترقی جاری نہیں رہ سکتی۔ مقامی لوگ امن چاہتے ہیں اور انسداد دہشت گردی کے اس خصوصی اقدام میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔"

بنتی ہوئی صورتحال

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ علاقائی سلامتی کی صورتحال میں ہونے والی تبدیلیوں کو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی حالیہ لہر سے جوڑا جا سکتا ہے۔

"اسلام آباد کے مقامی خفیہ ادارے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتایا، " بلوچستان کی موجودہ صورتحال کو خطے میں بدلتے ہوئے منظر نامے کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا براہ راست اثر پاکستان کی ملکی اور خارجہ پالیسی پر پڑتا ہے۔"

انہوں نے کہا، "بلوچستان وسطی ایشیاء کا داخلی راستہ ہے، اور مستقبل میں یہاں کی جانے والی غیر ملکی سرمایہ کاری کچھ ممالک کے مفادات کو متاثر کر سکتی ہے؛ لہٰذا وہ استحکام نہیں چاہتے۔"

اہلکار نے کہا، "میرے خیال میں بلوچستان میں شورش کا تیزی سے بڑھنا سلامتی کے ساتھ ساتھ اقتصادی مسائل کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ غیر ملکی کمپنیاں جو یہاں توانائی کے شعبے اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں، غیر محفوظ ماحول میں کیسے کام کر سکتی ہیں؟"

انہوں نے کہا کہ طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد داعش کی خراسان شاخ، داعش-کے کے ارکان، قریبی ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسلام آباد کے مقامی سینئر دفاعی تجزیہ کار، میجر (ریٹائرڈ) عمر فاروق نے کہا، "طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے، قندھار اور افغانستان کے دیگر حصوں میں چھپے بلوچ عسکریت پسند مبینہ طور پر پاکستان واپس جا رہے ہیں، جو ملک کے لیے مزید دفاعی مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے مسئلے سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ کارروائی نہیں کرتی تو یہاں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔

فاروق نے کہا، "بلوچستان گزشتہ تین دہائیوں سے بدامنی کا شکار ہے۔ آزادی کے لیے لڑنے والے کالعدم عسکریت پسند گروہ اب تک اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔"

ان کا کہنا تھا، "یہ عسکریت پسند صوبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور ترقی کی روانی کو روکنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔"

فاروق نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی اور اس کے معاون حلقے کے خاتمے کے لیے جامع اقدامات اٹھانا ضروری ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500