معاشرہ

بلوچستان میں چینی رسوخ سے متعلق خدشات میں اضافہ جاری

عبدالغنی کاکڑ

4 اکتوبر، 2017 کو لی گئی اس تصویر میں ایک پاکستانی ماہی گیر گوادر بندرگاہ پر ایک کشتی کو حرکت دے رہا ہے۔ جون میں گوادر میں مقامی بلوچ ماہی گیر ان کے علاقوں میں غیر قانونی چینی ماہی گیری کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ [ایمیلی ہیرنسٹائین / اے ایف پی]

4 اکتوبر، 2017 کو لی گئی اس تصویر میں ایک پاکستانی ماہی گیر گوادر بندرگاہ پر ایک کشتی کو حرکت دے رہا ہے۔ جون میں گوادر میں مقامی بلوچ ماہی گیر ان کے علاقوں میں غیر قانونی چینی ماہی گیری کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ [ایمیلی ہیرنسٹائین / اے ایف پی]

کوئٹہ – پاکستان میں گوادر کے ساحلی شہر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کے باشندے اپنی روز مرہ کی زندگیوں اور روزگار پر چینی رسوخ سے متعلق مسلسل خدشات اٹھا رہے ہیں۔

مقامی ماہی گیروں کی ایک تنظیم کے گوادر سے تعلق رکھنے والے رہنما ستّار دشتی نے کہا، "ہمارے علاقوں میں چین کی موجودگی کی وجہ سے ہم ایک غیر یقینی کی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔"

انہوں نے کہا، "گوادر اور دیگر ساحلی علاقوں میں مقامی افراد کی اکثریت کے لیے ماہی گیری ہی واحد ذریعہٴ معاش ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ماہی گیروں کے حقوق کو کچلتے ہوئے ان کے بجائے ماہی گیری کے چینی بحری جہازوں کو اجازت نامے جاری کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "ہم نے مقامی حکام کو درجنوں غیر قانونی چینی ماہی گیر جہازوں کی نشاندہی کی ہے، لیکن کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔"

4 اکتوبر، 2017 کو لی گئی اس تصویر میں ایک پاکستانی فوجی گوادر بندرگاہ پر تحفظ پر معمور ہے۔ [ایمیلی ہیرنسٹائین / اے ایف پی]

4 اکتوبر، 2017 کو لی گئی اس تصویر میں ایک پاکستانی فوجی گوادر بندرگاہ پر تحفظ پر معمور ہے۔ [ایمیلی ہیرنسٹائین / اے ایف پی]

مقامی ماہی گیروں کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ ہماری کشتیاں ماہی گیری کے لیے گہرے پانیوں میں نہیں جا سکتیں۔ دوسری جانب، گہرے پانی کے چینی ماہی گیر بحری جہاز بڑے جالوں کے حامل ہیں جو سمندری ماحول کو تباہ کر رہے ہیں۔

دشتی کے مطابق، چینی ماہی گیر بحری جہازوں کی غیر قانونی ماہی گیری مقامی افراد کو بے روزگار کرتے ہوئے ان کے لیے احتجاج کے علاوہ کوئی رستہ نہیں چھوڑ رہی۔

ایسے احتجاج میں تازہ ترین گزشتہ ماہ گوادر میں ہوا جب مقامی بلوچ ماہی گیروں نے غیر قانونی چینی ماہی گیری کے ساتھ ساتھ چینی ماہی گیر بحری جہازوں کو اجازت ناموں کے اجراء کے خلاف احتجاج کیا۔

توقع ہے کہ بلوجستان کے جنوب مغربی ساحل پر گوادر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام (بی آر آئی) کا اہم جزُ ہو گا، اور اس منصوبہ کے ہجم – اور کثیر ملین ڈالر منصوبوں کو مالیات فراہم کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان کی جانب سے بیجنگ سے لیے گیے قرض -- نے اسے زد پزیر صورتِ حال میں ڈال دیا ہے۔

اس امر کے برعکس کہ حکومتِ چین دیگر ممالک کے لیے – دلکش تجارتی اور ترقیاتی منصوبوں کی کنجی کے طور پر— کیسے بی آر آئی کی تشہیر کرتی ہے، بی آر آئی کا ایک قریبی جائزہ چین کے ایران، وسط ایشیا اور افریقہ میں قدرتی وسائل پر اجارہ دای قائم کرنے کے مقصد کو منکشف کرتا ہے۔

بلوچستان کا استحصال

بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر، ملک عبد الولی نے کہا، "مقامی قبائل بلوچستان میں تمام وسائل اور ساحل کے حقیقی مالک ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ چینی کمپنیوں کی موجودگی کی وجہ سے گوادر اور دیگر ساحلی علاقوں میں مستقبل سے متعلق خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے اور سختیاں بڑھ رہی ہیں۔

درایں اثناء، عبدالولی نے کہا کہ، حکام نے مبینہ طور پر سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے متعدد علاقوں میں نقل و حمل کو محدود کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ ترقی کے خلاف نہیں، "تاہم وہ ترقی کے نام پر [بلوچستان کے] استحصال پر خاموش نہیں رہیں گے۔"

گزشتہ برس کے اوآخر میں احتجاج کے بعد باڑ لگانے کا ایک منصوبہمعطل کر دیا گیا، جو کہ گوادر کے 300,000 سے زائد باشندوں کی نقل و حرکت کو پیچیدہ بنانے کے ساتھ ساتھ ماہی گیروں کو سمندر کے لیے رسائی کے ان کے عمومی مقامات سے مسدود بھی کر دیتا۔

بلوچستان کے حکام نے کہا کہ یہ باڑ چینی کارکنان کو دہشتگردی کے اقدامات سمیت، مقامی دشمنی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ناگزیر تھی۔

احساسِ محرومی

بلوچستان میں چینی قیادت کے منصوبوں پر بڑھتے ہوئے خدشات کی گونج صوبائی اسمبلی میں بھی سنائی دی۔

بلوچستان کی پارلیمان کے ایک رکن سمیع اللہ بلوچ نے کہا، "وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جاری ترقیاتی عمل میں اس وقت تک عوامی شرکت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے جب تک گوادر اور ملحقہ علاقوں کی عوام کے خدشات کم نہیں ہو جاتے۔"

انہوں نے کہا، "چینی ترقیاتی منصوبوں سے متعلق بڑھتے ہوئے خدشات کی ایک بڑی وجہ غیر شفاف پالیسیاں ہیں، جو نسبتاً چھوٹے صوبوں کے خدشات کو نظرانداز کرتی ہیں اور احساسِ محرومی میں اضافہ کرتی ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ چینی کمپنیوں نے ایسے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جن میں مقامی آبادی کو ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کا عہد کیا گیا۔

تاہم، "گوادر اور دیگر علاقوں میں کام کے آغاز کے بعد ہی سے، چینیوں نے ان معاہدوں کی اکثر شقوں کو نظرانداز کر دیا۔"

جیسا کہ گزشتہ برس خبر دی گئی، ژنجیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ بیجنگ کی بدسلوکی اور بلوچستان اور سندھ کے صوبوں میں بڑھتے ہوئے چینی رسوخ نے چین مخالف جذبات کو بھڑکایا، جس سے عسکریت پسند فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ہم اپنی سرزمین پر چین کے کردار کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہاں آپ نے بالکل درست عندیہ دیا ہے۔ چینی مافیا ہمارے وسائل کو لوٹ رہا ہے اور حکومت ترقی کے اپنے نام نہاد عنوان کے تحت ان کی تسہیل کر رہی ہے۔ ایک بلوچ ہونے کے ناطے یہ پوچھنا میرا حق ہے کہ انہوں نے وہ پیسہ کہاں خرچ کیا ہے جس کے ذریعے یہاں مقامی افراد کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ سی پی ای سی کا نتیجہ بھی سینڈک سونے کے منصوبے جیسا ہیبت ناک ہو گا۔ برائے مہربانی سینڈک منصوبے میں چینیوں کی بدعنوانی پر بھی آواز بلند کریں۔ پاکستانی میڈیا بلوچستان میں پسماندہ عوام کے حقیقی خدشات کو نمایاں نہیں کر رہا۔ تربت سے رؤوف بلوچ

جواب