سفارتکاری

پاکستان نے امن اور ترقی کی راہ پر افغانستان کی حمایت کرنے کا اعادہ کیا

عالم زیب خان

افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی ایلچی محمد صدیق (درمیان میں) 12 ستمبر کو، بین افغان مذاکرات کے بارے میں معصوم ستانکزئی (بائیں) سے دوحہ، قطر میں بات چیت کر رہے ہیں، وہ ان مذاکرات کے لیے کابل کے چیف مذاکرت کار تھے۔ تیسرے شخص کی شناخت نامعلوم ہے۔ [محمد صادق/ ٹوئٹر]

افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی ایلچی محمد صدیق (درمیان میں) 12 ستمبر کو، بین افغان مذاکرات کے بارے میں معصوم ستانکزئی (بائیں) سے دوحہ، قطر میں بات چیت کر رہے ہیں، وہ ان مذاکرات کے لیے کابل کے چیف مذاکرت کار تھے۔ تیسرے شخص کی شناخت نامعلوم ہے۔ [محمد صادق/ ٹوئٹر]

اسلام آباد -- دوحہ، قطر میں طالبان اور کابل کے درمیان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان، افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا جاری رکھے ہوئے ہے۔

مذاکرات کے پہلے دور کا آغاز 12 ستمبر کو افتتاحی تقریب کے بعد ہوا اور مذاکرات کے لیے ضابطہ اخلاق کا مسودہ تیار کیا گیا۔ اگلا مرحلہ منگل (15 ستمبر) کو شروع ہونے کی توقع ہے۔ یہ خبر اے ایف پی نے دی ہے۔

پاکستانی حکام نے مذاکرات کو خوش آمدید کہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے 11 ستمبر کو ٹوئٹ کیا کہ "میں 12 ستمبر 2020 کو بین- افغان مذاکرات کے آغاز کے اعلان کو گرم دلی سے خوش آمدید کہتا ہوں"۔

پاکستانی اور افغان حکام 3 ستمبر کو اسلام آباد میں ملاقات کر رہے ہیں تاکہ اپنے ملکوں کے تعلقات کے بارے میں بات چیت کی جا سکے۔ [بہ شکریہ عالم زیب خان]

پاکستانی اور افغان حکام 3 ستمبر کو اسلام آباد میں ملاقات کر رہے ہیں تاکہ اپنے ملکوں کے تعلقات کے بارے میں بات چیت کی جا سکے۔ [بہ شکریہ عالم زیب خان]

افغان طالبان کا ایک وفد 25 اگست کو اسلام آباد میں دفترِ خارجہ میں ہونے والی ایک میٹنگ میں شریک ہے۔ [پاکستانی دفترِ خارجہ]

افغان طالبان کا ایک وفد 25 اگست کو اسلام آباد میں دفترِ خارجہ میں ہونے والی ایک میٹنگ میں شریک ہے۔ [پاکستانی دفترِ خارجہ]

انہوں نے کہا کہ "آخرکار ہماری مشترکہ کوششوں سے وہ دن آیا ہے جس کا افغان عوام انتظار کر رہے تھے"۔

خان نے ایک الگ ٹوئٹ میں کہا کہ "اپنا حصہ ادا کرتے ہوئے، پاکستان افغانستان کے عوام کی مکمل حمایت کرتا ہے اور ان سے یکجہتی کو جاری رکھے گا جبکہ وہ امن اور ترقی کے اس نتیجہ خیز سفر پر قدم بڑھا رہے ہیں"۔

افغانستان کی مفاہمت کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اسلام آباد میں دوسرے حکام کے ساتھ افغان امن کے عمل کے بارے میں، پیر (14ستمبر) کو بات چیت کی۔

انٹر سروسز پبلک ریلشنز کے ایک بیان میں باجوہ کے بیان سے اقتباس میں کہا گیا کہ پاکستان علاقائی امن، معاشی ترقی اور خوشحالی کی تشہیر کے لیے اپنے مشن کو آگے بڑھانے کا عزم رکھتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ خالد زاد نے "افغان امن کے جاری عمل میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ اس کی کامیابی پاکستان کی پرخلوص کوششوں اور غیر مشروط مدد کے بغیر ممکن نہیں تھی"۔

قائم مقام وزیرِ خارجہ محمد حنیف اتمار نے اس عمل میں پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے ٹوئٹر پر کہا کہ "ایک پرامن اور مستحکم افغانستان نہ صرف ترقی اور خوشحالی کے لیے افغانستان کے لیے بلکہ سارے علاقے کے لیے مواقع لائے گا"۔

پاکستان نے گزشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان اور طالبان کے ساتھ رابطوں کو بڑھا دیا تھاتاکہ ان مذاکرات کو آسان بنایا جا سکے۔

اگست میںطالبان کی مذاکرات کار ٹیم کے اہم ارکان نے اسلام آباد کا سفر کیا تھا۔

اس وقت وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ اسلام آباد نے طالبان کو پاکستان اس لیے بلایا ہے کہ ان پر ان مذاکرات کی اہمیت کے بارے میں زور ڈالا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ مذاکرات افغانستان میں آگے بڑھنے کا "واحد راستہ" ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "مفاہمت کرنا افغانیوں کا کام ہے اور ہمارا کام اسے آسان بنانا ہے"۔

بڑھتا ہوا تعاون

بین افغان مذاکرات کے لیے پاکستان کی مدد، دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی ایک نشانی ہے۔

پاکستان-افغانستان پارلیمانی دوستی گروپ کی ایگزیکٹیو کمیٹی 3 ستمبر کو دوسری بار اسلام آباد میں ملی، اس سے پہلے وہ 8 جولائی کو ملے تھے۔

دی نیشن نے خبر دی ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے میٹنگ میں کہا کہ تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے اور تاجروں کو سہولیات فراہم کرنے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے ہجم میں اضافہ ہوگا۔

اس میٹنگ کے دوران، افغانستان - پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹجو کہ 2021 میں ختم ہو رہا ہے، کے بارے میں مذاکرات کی شرائط کی نگرانی کے لیے ٹاسک فورس قائم کی گئی۔

وزیرِاعظم عمران خان کے خصوصی نائب محمد ارباب شہزاد کے مطابق، ویزوں کی سہولت کے لیے پالیسی کا مسودہ بھی تیار کیا گیا اور اسے کابینہ کی میٹنگ میں پیش کیا گیا۔

قبل ازیں، 16 جولائی کو نیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے کئی منصوبوں کی منظوری دی جس میں درہِ خیبر اقتصادی راہداری بھی شامل ہے۔ یہ خبر ایکسپریس ٹریبیون نے دی ہے۔

اس منصوبے کے تحت پشاور اور طورخم کے درمیان ایک 48 کلومیٹر طویل چار لائنوں کی ایکسپرس وئے، جون 2024 تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔

عالمی بینک جس نے گزشتہ دسمبر میں اس پہل کاری کے لیے 406.6 ملین ڈالر (68.1 بلین روپے) فراہم کرنے پر اتفاق کیا تھا، کے مطابق یہ پاکستان اور افغانستان کو درہِ خیبر کے ذریعے وسطی ایشیاء سے ملا دے گی۔

پاکستان ، افغانستان اور وسطی ایشیا کے مابین تجارت سے متعلق فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے کنوینر شاہد شنواری نے کہا کہ "اس منصوبے کا علاقے کی معیشت پر زیادہ گہرا اثر ہو گا کیونکہ اس میں نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے بلکہ وسطی اور جنوبی ایشیاء میں درمیان تاریخی تجارتی راستے کو زندہ کر دینے کی صلاحیت بھی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینے سے، پاکستان اور افغانستان کے تمام سرحدی علاقے کو فائدہ پہنچے گا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

افغانستان میں استحکام تمام تر خطے میں امن و ترقی لائے گا۔ پرانا گاہک، جاری رکھیں۔۔۔

جواب