سوات -- بدھ (26 فروری) کے روز پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ایک صحافی جس کے رشتے دار تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مخالف گروپ کے رکن تھے، کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
36 سالہ جاوید اللہ خان، کو ضلع سوات کے علاقے مٹہ میں منگل (25 فروری) کو بے رحمی سے گولی مار دی گئی تھی، جو کہ وادیٔ سوات کے شمال مغرب میں کوئی 40 کلومیٹر کے فاصلے پر دہشت گردوں کا سابقہ گڑھ تھا۔
وہ اردو زبان کے ایک روزنامے اوصاف کے بیورو چیف کے طور پر کام کرتے تھے۔
اعلیٰ پولیس اہلکار محمد اعجاز خان نے اے ایف پی کو بتایا، "جاوید پولیس کے ایک محافظ کے ہمراہ سفر کر رہا تھا جب دو مسلح افراد نے اس کی گاڑی پر فائر کھول دیا۔ وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔"
ایک مقامی پولیس اہلکار، علی محمد، نے بھی واقعہ کی تصدیق کی ہے۔
محمد علی کا مزید کہنا تھا، "یہ نشانہ بنا کر کیا گیا ایک حملہ تھا۔"
صحافی کے بہت سے رشتہ دار دہشت گردی کی نظر ہوئے تھے
محمد علی نے مزید کہا، "اس کے بہت سے رشتے دار، بشمول بھائی، چچا اور کزنز، طالبان مخالف امن کمیٹیوں میں اپنی شرکت کی وجہ سے ہلاک کر دیئے گئے تھے۔"
برسوں تک، قبائلی چوکس گروہ، جو مقامی طور پر بطور امن کمیٹیاں یا لشکر معروف ہیں، نے دہشت گردوں سے اپنے دیہات کا دفاع کیا ہے۔
بیشتر کو ملک بھر میںسیکیورٹی میں ڈرامائی بہتریکے بعد ختم کر دیا گیا ہے۔
جبکہ حالیہ برسوں میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے، باغیوں کے پاس ابھی بھی حملے کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل، جس نے ایک آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، نے کہا کہ خان ایک "غیر معمولی طور پر بہادر صحافی" تھا۔
کسی تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی، مگر دہشت گرد ماضی میں طویل عرصے سے حکومت کے حامی قبائلی عمائدین کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
اللہ پاک ضالموں کو تباہ کرے جو ملک پاکستان میں امن کو خراب کرتے ہیں
جوابتبصرے 1