معیشت

پاکستانی نوجوانوں کی جانب سے روزگار کی ملک گیر پہل کاری کا خیرمقدم

از اشفاق یوسفزئی

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل 5 دسمبر کو ملتان، پنجاب میں وزیرِ اعظم عمران خان کے کامیاب جوان پروگرام کی افتتاحی تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے۔ [پاکستانی محکمہؐ ابلاغ]

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل 5 دسمبر کو ملتان، پنجاب میں وزیرِ اعظم عمران خان کے کامیاب جوان پروگرام کی افتتاحی تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے۔ [پاکستانی محکمہؐ ابلاغ]

پشاور -- پاکستان بھر سے، خصوصاً قبائلی علاقہ جات سے تعلیم یافتہ نوجوان وزیرِ اعظم کی نئی روزگار پہل کاری سے مستفید ہونے کے منتظر ہیں۔

نوجوانوں کا کاروباری آغاز کا منصوبہ، جو وزیرِ اعظم عمران خان کے کامیاب جوان پروگرام کے تحت آتا ہے، 5 دسمبر کو شروع کیا گیا تھا۔

منصوبے کے تحت، اپنے چھوٹے کاروباروں کے آغاز نیز موجودہ کاروباروں میں معاونت کے لیے حکومت کی جانب سے مختلف قرضہ جات وصول کرنے کے لیے، درخواست دہندگان اپنے کاروباری منصوبے آن لائن جمع کروا سکتے ہیں۔

ضلع پاراچنار سے تعلق رکھنے والی، 24 سالہ شیما بی بی نے کہا، "میں خواتین کو تربیت فراہم کرنے اور انہیںباعزت طریقے سے روزگار کمانےکے قابل بنانے کے لیے اپنے گاؤں میں ایک سلائی کڑھائی کی دکان بنانے لگی ہوں"۔

6 دسمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی تقریب میں ایک خاتون وزیرِ اعظم عمران خان سے قرضے کا چیک وصول کرتے ہوئے۔ [پی ٹی آئی]

6 دسمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی تقریب میں ایک خاتون وزیرِ اعظم عمران خان سے قرضے کا چیک وصول کرتے ہوئے۔ [پی ٹی آئی]

شیما بی بی، جسے پروگرام کی جانب سے 3.5 ملین روپے (22،588 ڈالر) کا بلا سود قرضہ ملا ہے، نے کہا کہ وہ اس پیسے کو اس علاقے میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے استعمال کریں گی جو کبھی عسکریت پسندی کا شکار رہا ہے۔

شیما بی بی نے کہا، "درجنوں ایسی خواتین اور لڑکیاں ہیں جو دہشت گردی سے متعلقہ واقعات میں اپنے شوہروں یا والدین سے محروم ہو چکی ہیں۔ لہٰذا، پروگرام ایک نعمت ہے جو جدوجہد کے ان وقتوں میں ان کی مدد کرے گا"۔

ان کا کہنا تھا، "بہت جلد، میں ایک سلائی کڑھائی کی دکان شروع کروں گی کیونکہ پیسہ میرے کھاتے میں منتقل ہو گیا ہے،" ان کا مزید کہنا تھا کہ پروگرام عسکریت پسندوں کی خواتین کو کام کرنے سے روکنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ایک بہترین پہل کاری ہے۔

سوات سے تعلق رکھنے والے محمد رفیق بھی قرضہ وصول ہونے پر شادمان ہیں۔

رفیق، جو کہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے 90،000 درخواست دہندگان میں سے ایک ہیں، نے کہا کہ ان کے والد، جو کہ ایک دکاندار تھے، 2008 میں طالبان کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے سے قاصر تھے۔

ان کا کہنا تھا، "میں نے پہلے ہی موبائل کی مرمت کی تربیت حاصل کی ہوئی ہے، اب میں یہاں اپنا کاروبار شروع کروں گا۔ حکومت نے میری قرضے کی درخواست منظور کر لی ہے، اور 2 ملین روپے (12،907 ڈالر) میرے کھاتے میں منتقل ہو چکے ہیں"۔

حکومت کی جانب سے منظور شدہ کاروباری منصوبے کے تحت، رفیق موبائل مرمت کی ایک ورکشاپ اور ایک دکان بنانے کا خواہشمند ہے جس میں ایک درجن سے زیادہ نوجوان ملازمت پر رکھے جائیں گے۔

21 سالہ رفیق کا کہنا تھا، "قرضہ آٹھ برسوں کے بعد قسطوں میں واپس ہو گا، اور مجھے امید ہے کہ یہ نوجوانوں کے لیے خود انحصار بننے کا ایک اچھا موقع ہے"۔

ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والی، 23 سالہ نسیمہ خان نے کہا کہ انہوں نے 2012 میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا تھا مگر سنہ 2009 میں ایک بم دھماکے میں اپنے والد کی وفات کے بعد وہ مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکیں۔ انہوں نے پھر ایک نجی سکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔

نسیمہ خان نے کہا، "میں نے قرضہ سکیم کے متعلق سنا تھا اور ایک تجویز پیش کی جو کہ منظور ہو گئی۔ میرا منصوبہ ایک نجی سکول قائم کرنے کا ہے، جس کے لیے مجھے 4 ملین روپے (25،814 ڈالر) کا قرضہ ملا ہے"۔

سنہ 2008 تا 2012 باجوڑ میں تباہی کا حوالہ دیتے ہوئے، ان کا کہنا تھا، "میں نے لڑکیوں کا ایک سکول کھولنے کے لیے کام شروع کر دیا ہے کیونکہ انہوں [لڑکیوں] نے طالبان جنگجوؤں کے ہاتھوں زیادہ تکالیف سہی ہیں، جنہوں نے 100 سے زائد سکولوں کو تباہ کیا، جن میں سے اکثریت خواتین کے لیے تھے"۔

نسیمہ خان نے کہا کہ سکول نہ صرف خواتین اساتذہ کو ملازمتیں فراہم کرے گا بلکہ لڑکیوں کو بھی ایک معمولی فیس کے عوض سکول میں داخل ہونے کے قابل بنائے گا،ان کا مزید کہنا تھا کہ لڑکیوں کو تعلیم کی اشد ضرورت ہے.

تعصب پسندی سے اجتناب

وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے امورِ نوجوانان، عثمان ڈار نے کہا کہ اس پہل کاری کا مقصد نوجوانوں کو بامقصد سرگرمیوں میں مشغول کرنااور انہیں اچھے شہری بناناعثمان ڈار نے کہا کہ اس پہل کاری کا مقصد نوجوانوں کو بامقصد سرگرمیوں میں مشغول کرنا

ان کا کہنا تھا، "ماضی میں، سابقہ فاٹا [وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات] اور سوات میں نوجوان عسکریت پسندوں کے ساتھ شامل ہوئے کیونکہ وہ بیروزگار تھے اور متعصب بنائے جانے اور بطور خودکش بمبار استعمال کیے جانے کے لیے حساس تھے۔"

ڈار نے کہا کہ یہ پروگرام نوجوانوں کو اپنے ذاتی کاروبار کرنے اور معاشی آزادی حاصل کرنے اور عسکری گروہوں سے دور رہنے کا موقع فراہم کرے گا۔

ڈار کا کہنا تھا، "یہ بہت حوصلہ افزاء بات ہے کہ 1 ملین درخواست دہندگان، بشمول 190،000 خواتین، نے پروگرام میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ہم نے خواتین کے لیے 25 فیصد کوٹہ رکھا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے مرحلے میں، 50،000 نوجوانوں نے قرضے حاصل کیے ہیں۔

ڈار نے کہا کہ پروگرام اگلے دو برسوں میں نوجوانوں کے لیے 100 بلین روپے (645 ملین ڈالر) مختص کرے گا۔ ان کا کہنا تھا، "نوجوانوں کو مشغول کرنا عسکریت پسندوں کے بیروزگار نوجوانوں کو دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے بھرتی کرنے کے طریقے کو روکتا ہے"۔

سابقہ فاٹا کے سینکڑوں نوجوان قرضے حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں، جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ عسکریت پسندی کے مارے خطے کو ترقی کرنے میں مدد دینے کی طرف ایک قدم ہے۔

ایک مقامی بینکار، پشاور کے امجد علی نے کہا کہ پروگرام منفرد اور مفید ہے کیونکہ قرض وصول کرنے والوں کی اکثریت کو ان کے ہنر اور تعلیم کی بنیاد پر منتخب کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا، "ہمارے پاس مثالیں موجود ہیں کہ ایسے چھوٹے قرضے ملکوں کی ترقی میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ اس سے خاندانوں نیز ملک میں خوشحال آئے گی"۔

کے پی اسمبلی کی ایک خاتون رکنِ اسمبلی، عائشہ بی بی نے کہا کہ پروگرام کا ایک جزوی مقصد اپنے کاروبار قائم کرنے میں خواتین کو مالی امداد فراہم کرنا ہے۔

کے پی اسمبلی میں ترقیاتی معاون کمیٹی برائے ضلع مہمند کی صدر نشین، عائشہ بی بی نے کہا کہ وفاق حکومت نے خواتین کی ترقی کو فوقیت دینے کا وعدہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا، "چھوٹے کاروبار ملازمت کے مواقع فراہم کرتے ہوئے، اختراع کو پروان چڑھاتے ہوئے اور آمدن کی عدم مساواتوں کو کم کرتے ہوئے معاشی ترقی کو متحرک کرتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ روایتی ذرائع سے سرمایہ کاری حاصل کرنے کی قلت ملک میں چھوٹے کاروباروں اور کاروباری آغاز کرنے والے نوجوان کو درپیش اہم مسئلہ ہے۔

عائشہ بی بی نے کہا کہ حکومت کو صورتحال کا ادراک ہے اور وہ نئے کاروبار قائم کرنے یا اپنے موجودہ کاروباروں کو مضبوط بنانے کے لیے بینکوں سےنوجوانوں کو سستا سرمایہ حاصل کرنے کے قابل بنانےمیں پوری طرح مخلص ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد بیروزگار نوجوانوں کو ذاتی کاروبار کرنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 6

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

قرضے فراہم کرنے کی بجائے نوکریاں کیوں نہیں دی جارہی ۔ کہاں گیے نوکریاں دینے کے دعوے ۔

جواب

ہم نے جس روز کامیاب جوان پروگرام لانچ ہوا تھا تب ایپلائی کیا تھا ابھی تک کسی نے نہ کال کی نہ کچھ بتایا صرف چند مرضی کے لوگوں کو نوازا گیا ہے اور خانہ پوری کی گئی ہے

جواب

بہت اچھی ہے اور مجھے بھی لیناہے۔

جواب

تو لے لو اگر ملے تو ۔ .
و یسے بھی تمھیں جب تک مار نا پڑے تم۔لوگ سمجھتا نہیں

جواب

کوئی فائدہ نہی اس میں بھی اپنو کو نوازا جا رہا شرئط ایسی رکھی گئی ہیں کہ عام آدمی قرضہ لے نہی سکتا اب اس میں 16 گریڈ کا گورنمنٹ آفیسر ضمانت لے اس کے بعد ملے گے یہاں ہمارے ملک میں 16 گریڈ کا آفیسر اپنے ساتھ بٹھانے کو تیار نہی وہ ضمانت ایک عام آدمی کا کیسا لے گا

جواب

Mojy b chahyi

جواب