دہشتگردی

دہشت گردی کے عالمی اشاریئے میں پاکستان کی جانب سے پیش رفت کا اظہار

از ضیاء الرحمان

نیم فوجی رینجرز 20 نومبر کو کراچی میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

نیم فوجی رینجرز 20 نومبر کو کراچی میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی -- سڈنی میں قائم ادارہ برائے معیشت و امن (آئی ای پی) کی جانب سے شائع کردہ 2019 عالمی دہشت گردی اشاریہ کے مطابق، گزشتہ برسوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور ان سے متعلقہ اموات میں کمی دیکھی گئی ہے۔

20 نومبر کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، سنہ 2018 میں، دہشت گردی سے متعلقہ اموات 37 فیصد کم ہو کر 537، اور واقعات کی تعداد 36 فیصد کم ہو کر 366 ہو گئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اموات اور واقعات کی تعداد میں سنہ 2013 میں ان کے عروج کے مقابلے میں بالترتیب 81 فیصد اور 77 فیصد کمی واقع ہوئی۔

تاہم، پاکستان کالعدم عسکری تنظیموں کی جانب سے پرتشدد واقعات کی وجہ سے دنیا میں ابھی بھی پانچ مہلک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔

کراچی میں امن کے داعی دسمبر 2017 میں طالبان جنگجوؤں کے مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی میں امن کے داعی دسمبر 2017 میں طالبان جنگجوؤں کے مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

سنہ 2016 تا 2018، پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ترین ممالک میں سے پانچویں نمبر پر رہا ہے۔ سنہ 2012 میں یہ دوسرے نمبر پر، سنہ 2013 میں تیسرے اور 2015-2014 میں چوتھے نمبر پر تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا، "اس سال نسبتاً بہتری کے باوجود، پاکستان میں دہشت گردی ایک بڑا خطرہ رہی ہے۔"

داعش-خراسان

رپورٹ کے مطابق، سنہ 2018 میں پاکستان میں دہشت گردی سے ہونے والی اموات کی ذمہ دار بنیادی طور پر "دولتِ اسلامیہ" کی خراسان شاخ (داعش-کے)، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور لشکرِ جھنگوی (ایل ای جے) تھیں۔

داعش-خراسان سنہ 2018 میں تینوں میں سے سب سے زیادہ مہلک رہی، جو کہ 251 اموات -- یا ملک میں ایسی اموات کے 36 فیصد -- کی ذمہ داری تھی جن میں سے زیادہ تر بلوچستان میں واقع ہوئیں۔

اس سال دہشت گردی کی سب سے خونریز کارروائی جولائی 2018 میں ضلع مستونگ، بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار کی انتخابی ریلی میں ہوئی، جس میں کم از 150 افراد جاں بحق ہوئے اور یہ اس سال دنیا بھر میں مہلک ترین دہشت گرد حملوں میں سے تیسرا حملہ تھا۔

پاکستان میں، سنہ 1970 کے بعد سے، اس خودکش حملے میں ہونے والی اموات کی تعداد دوسرے نمبر پر تھی جبکہ پہلے نمبر پر دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر طالبان کا حملہ تھا۔ اس قتلِ عام میں 150 سے زائد بچے اور اساتذہ جاں بحق ہوئے تھے۔

مستونگ کے بم دھماکے کے بعد سے، پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صوبے میں داعش-خراسان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے وسیع آپریش شروع کیے ہیں اور اس کے کئی رہنماؤں کو ہلاک کیا ہے۔ مستونگ دھماکے کا منصوبہ ساز، ہدایت اللہمارے جانے والوں میں شامل ہے۔

حکام نے تعلیمی اداروں میں ممکنہ بھرتی کاروں پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے، تنظیم کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔

داعش خراسان سنہ 2017 میں 6.3 اموات فی حملہ سے سنہ 2018 میں 12.1 اموات فی حملہ کے بڑے اضافے کے ساتھ افغانستان اور پاکستان میں زیادہ مہلک ہو گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، "عراقاور شاممیں عسکری شکستوں کے بعد، یہ جنوبی ایشیاء میں داعش کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے بالکل ہم آہنگ ہے۔"

داعش کا امیر ابوبکر البغدادی دیگر جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد کے ہمراہ26 اکتوبر کو رات کے وقت ایک چھاپے میںشمال مشرقی شام میں امریکی خصوصی فوج کے ہاتھوں مارا گیا تھا، یہ پیش رفت رپورٹ میں شامل نہیں ہے کیونکہ یہ سنہ 2019 کا واقعہ ہے۔

مئی میں، داعش نے اعلان کیا تھا کہ اس نے پاکستان میں "صوبہ ہند" قائم کر لیا ہے۔ یہ اعلان داعش کی جانب سے بھارتی زیرِ تسلط کشمیر میں ایک حملے کے بعد کیا گیا تھا۔

اس کے بعد سے، داعش نے تنظیم کی بگڑتی ہوئی قسمت کے باوجود اپنے تشخص میں اضافہ کرنے کی ایک کوشش میں گزشتہ مہینوں میں پاکستان میں بہت سے دہشت گرد حملوں اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کے لیےجھوٹی ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔

رپورٹ میں یہ مشاہدہ بھی کیا گیا ہے کہ دہشت گردی میں کمی کا رجحان گزشتہ دہائی میں پاکستان کے مہلک ترین دہشت گرد گروہ، تحریکِ طالبان پاکستان کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں متواتر کمی کی عکاسی کرتا ہے۔ ٹی ٹی پی سنہ 2007 کے بعد سے کم از کم 4،800 اموات کے لیے ذمہ دار رہی ہے، جس میں اس نے صرف سنہ 2010 میں ہی 740 افراد کو ہلاک کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، سنہ 2018 میں، ٹی ٹی پی سے وابستہ اموات 56 فیصد کم ہو کر 151 ہو گئی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 2018 میں داعش-خراسان کے ساتھ الحاق شدہ ایک کالعدم تنظیم، لشکرِ جھنگوی کی جانب سے تاریخی طور پر کم ترین سطح کی سرگرمی دیکھنے میں آئی ہے، جس میں تیسری بڑی دہشت گرد تنظیم نے صرف دو حملے کیے جن میں چھ جانیں گئیں۔

امن و امان میں بہتری

دفاعی تجزیہ کاروں اور قانون نافذ کرنے والے حکام کے مطابق، حکومتی کوششیں، بشمول فوجی آپریشنز، دہشت گردی میں کمی پر منتج ہوئی ہیں۔

سنہ 2009 سے آغاز کرتے ہوئے، پاکستانی فوج نے عسکریت پسند تنظیموں، بشمول ٹی ٹی پی اور داعش-خراسان کے نیٹ ورکس کو توڑنے کے لیے فوجی کارروائیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے اور ان کے بہت سے قائدین کو ہلاک یا گرفتار کیا ہے۔

کوئٹہ میں ایک دفاعی اہلکار نے کہا، "درحقیقت، ٹی ٹی پی کے پشاور میں [اے پی ایس پر] حملے، جس میں کم از کم 151 افراد جاں بحق ہوئے تھے، جن میں اکثریت سکول کے بچوں کی تھی، نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ کو چوکنا کر دیا اور انہوں نے دہشت گرد تنظیموں کے خطرے کا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ کرنے کا مضبوط عزم کیا۔"

اہلکار، جس نے گمنام رہنے کی درخواست کی تھی کیونکہ وہ ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کا مجاز نہیں ہے، کا کہنا تھا، "خطے میں داعش کی آمد اور اس کی خراسان شاخ بننے کے بعد، پاکستان قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملک بھر، خصوصاً صوبہ بلوچستان میں اپنی مخبری کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائیوں کو شدید کر دیا تھا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بے شک ، ایک معلوماتی مضمون۔

جواب