دہشتگردی

ویڈیو گیم چیٹ رومز داعش کے لیے مواصلات کی نئی راہیں فراہم کر رہے ہیں

عبدالغنی کاکڑ

9 ستمبر 2013 کو لی گئی ایک تصویر میں ایک پاکستانی طالبِ علم لاہور میں ایک انٹرنیٹ کیفے میں یوٹیوب براؤز کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

9 ستمبر 2013 کو لی گئی ایک تصویر میں ایک پاکستانی طالبِ علم لاہور میں ایک انٹرنیٹ کیفے میں یوٹیوب براؤز کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

کوئٹہ – ذرائع نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "دولتِ اسلامیہٴ عراق و شام" (داعش)پاکستان میں جنگجوؤں کو بھرتی کرنےاور ان سے بات چیت کرنے کے لیے ویڈیو گیم چیٹ سسٹم کا استعمال کر رہی ہے۔

متعدد موبائل اور ویڈیو گیمز میں داخلی چیٹ سسٹمز ہوتے ہیں جو کھلاڑیوں کو ایک دوسرے سے بات کرنے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ گیم کی چند خصوصیات غیر تحریری پیغامات بھیجنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ دفاعی عہدیدار نے اپنی شناخت مخفی رکھے جانے کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتایا، "داعش اپنی مخصوص مواصلات اور حملے کرنے کے لیے مفت موبائل اور کمپیوٹر گیمز کا استعمال کر رہا ہے۔"

انہوں نے داعش کی افغانستان اور پاکستان اساسی شاخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "داعش کا خراسان دھڑا علاقائی سلامتی کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر سامنے آ رہا ہے، اور ۔۔۔ یہ عسکریت پسند گروہ ہمارے ملک میں دیگر کالعدم دہشتگرد تنظیموں سے روابط استوار کر رہا ہے۔"

سوشل میڈیا پر ایک کریک ڈاؤن کے بعد سے داعش ممکنہ بھرتی شدگان سے بات چیت کرنے کے لیے نئے طریقے استعمال کر رہا ہے۔ ویڈیو گیم چیٹ رومز ان نئی راہوں میں سے ایک ہیں۔ [حیتیش چودھری]

سوشل میڈیا پر ایک کریک ڈاؤن کے بعد سے داعش ممکنہ بھرتی شدگان سے بات چیت کرنے کے لیے نئے طریقے استعمال کر رہا ہے۔ ویڈیو گیم چیٹ رومز ان نئی راہوں میں سے ایک ہیں۔ [حیتیش چودھری]

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ایک کریک ڈاؤن کے بعد، اب آن لائن ویڈیو گیمنگ سسٹم داعش کی مواصلات کا ایک کلیدی ذریعہ ہیں۔

مواصلات کی خصوصیات کی حامل متعدد گیمز بلا قیمت ہیں، اور ویڈیو گیم کنسولز میں بھی وائس کانفرنس کی خصوصیات موجود ہیں۔

انہوں نے کہا، "گیمنگ چیٹ رومز میں "peer-to-peer" مواصلات کی نگرانی کرنا نہایت مشکل ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "ہماری تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ داعش اور اس سے ملحقہ کالعدم عسکریت پسند گروہ اپنی مواصلات کے لیے بھاری پیمانے پر سونی پلے سٹیشن 4 اور اس کی ویڈیو گیمز کا استعمال کر رہے ہیں۔"

دہشتگردوں کے منصوبہ کو ناکام بنانا

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ سیکیورٹی عہدیدار غلام عبّاس نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند برسوں میں، سیکیورٹی ایجنسیوں نے صوبہ بلوچستان، لاہور، کراچی اور ملک کے دیگر حصّوں میں عسکریت پسندوں کی کمین گاہوں سے متعدد گیمنگ نظام مسدود کیے اور بازیاب کرائے ہیں۔

عبّاس نے کہا، "ہمارے ماہرین کا ماننا ہے کہ بازیاب شدہ کنسولز مواصلات اور عسکریت پسندوں کے منصوبوں کی معاونت کے لیے استعمال ہوتے تھے۔"

انہوں نے کہا، "داعش جیسے عسکریت پسند گروہوں کے مابین یکسانیت کے ساتھ اور تضویری بات چیت ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں کے لیے متعدد چیلنجز پیدا کرتی ہے۔ لیکن۔۔۔ مواصلات کے ان نئے طریقوں کی انسداد کے لیے نہایت راست اور جامع پلان آف ایکشن زیرِ غور ہے۔"

عبّاس نے کہا، "داعش کے پاس ہمارے خطے کے سب سے بڑے ڈیجیٹل مواصلاتی پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے، اور وہ اپنی بھرتیوں اور مواصلات کے لیے اس فورم کو فراخی سے استعمال کر رہی ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہماری قومی سلامتی سے نمٹنے والی نفاذِ قانون کی ایجنسیاں خطے میں ہر نئی پیشرفت پر ایک قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہیں، اور گزشتہ برس بڑی تعداد میں داعش کے ساتھ مبینہ الحاق رکھنے والے ملزمان ملک کے مختلف حصوں سے گرفتار کیے جا چکے ہیں۔"

عباس نے کہا، "ہمارے پاس ایسی خبریں ہیں کہ قبل ازاں دیگر عسکریت پسند گروہوں کے لیے کام کرنے والے متعدد عسکریت پسند اب داعش کے ساتھ منسلک ہیں اور یہ کہ وہ ہمارے خطے میں اپنے نیٹ ورک کو مستحکم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔"

ایک سابق انٹیلی جنس عہدیدار، جو قبل ازاں اپنی ایجنسی کے انسدادِ دہشتگردی کے دفتر میں خدمات سرانجام دیتے رہے، نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "اگرچہ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیاں ہمارے خطے میں داعش کی کسی قسم کی گرفت کو ناکام بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہی ہیں"، تاہم اس گروہ کی انسداد کے لیے مزید جامع حکمتِ عملی درکار ہے۔

انہوں نے کہا، "عسکریت پسندوں کے مواصلاتی نیٹ ورک کے خاتمہ کے لیے، وقت کی ضرورت ہے کہ ملک میں گیمنگ کنسولز کے استعمال کی ایک پالیسی برقرار رکھی جائے۔"

انہوں نے کہا، "گیمنگ کنسولز کی اکثریت ملک میں ہر جگہ دستیاب ہے، اور صارف کے لیے ایسی گیمز خریدنا یا آن لائن کھیلنا آسان ہے۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں داعش سے ملحقہ عسکریت پسند اپنے تخریبی ایجنڈا کے لیے بنیادی طور پر نوجوانوں کو ہدف بنا رہے ہیں اور ایسے صارفین کی دماغ شوئی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اپنے فارغ وقت کو گیمز کھیلنے میں صرف کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، "ملک میں آن لائن گیمنگ سسٹمز کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز قانون سازی ہونی چاہیئے۔"

نئی قانون سازی کی ضرورت

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک ماہر عرفان علی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، دنیا بھر میں آن لائن گیمز کے 400 ملین سے زائد صارفین ہیں، اور یہ گیمز صارفین کی ذہنیت کو تبدیل کرنے میں ایک بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔"

انہوں نے کہا، "میرے خیال میں گیمنگ کنسولز کے استعمال کو ضابطہ میں لانے کے لیے مخصوص قانون سازی کے بغیر، ہم اخلاقی استعمال کے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے۔"

علی کے مطابق، ملک بھر میں ہزاروں انٹرنیٹ کیفے اور گیمنگ شاپس کسی بھی قسم کے اعداد و شمار برقرار رکھے بغیر صارفین کو خوش آمدید کہتی ہیں۔ "یہی وقت ہے کہ گہرائی میں تحقیقات کی جائیں کہ کیوں انٹرنیٹ کیفے کسی حکومتی اجازت نامہ کے بغیر کام کر رہے ہیں۔"

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک دفاعی عہدیدار محمّد عمران نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "peer-to-peer کمیونیکیشن تک رسائی کے بغیر گیمنگ کنسولز کی مواصلات پر کسی بھی قسم کی گیمنگ سرگرمی کی نگرانی کرنا ممکن نہیں ہے۔"

انہوں نے کہا، "اگر سیکیورٹی ایجنسیاں آن لائن گیمنگ سسٹمز کے چیٹ رومز میں اپنے ماہرین تعینات کر دیتیں، تو وہ بآسانی ملزمان اور ان کی سرگرمیوں کی شناخت کر سکتیں۔"

انہوں نے کہا کہ داعش کی مواصلات بڑے پیمانے پر آن لائن گیمز اور تمام صارفین کو ان کی مفت دستیابی پر منحصر ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، "ہمیںاپنی قومی سلامتی کو درپیش داعش کے ابھرتے ہوئے خطرےکا کم اندازہ نہیں لگانا چاہیئے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

خوب

جواب

اسے سیکیورٹی ایجنسیوں کے کنٹرول میں ہونا چاہیئے اور موبائل سم کارڈز کی طرح ان گیمز کا بھی اندراج ہونا چاہیئے۔

جواب

میں متفق ہوں کہ ہمیں اسے سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔۔

جواب