ٹیکنالوجی

'حقیقی انٹرنیٹ' کے ایک پُرمسرت ہفتے کے بعد چین کے سینسر کرنے والوں نے کلب باؤس بند کر دیا

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

19 دسمبر 2020 کو بیجنگ میں لوگ ایک زیرِ زمین ٹرین میں اپنے موبائل فون استعمال کرتے ہوئے۔ [نوئل سیلس / اے ایف پی]

19 دسمبر 2020 کو بیجنگ میں لوگ ایک زیرِ زمین ٹرین میں اپنے موبائل فون استعمال کرتے ہوئے۔ [نوئل سیلس / اے ایف پی]

بیجنگ -- تقریباً ایک ہفتے کے لیے، چین کے اصل باشندوں اور دیگر چینی بولنے والے صارفین کی رسائی نادر اور بلا روک ٹوک "حقیقی" انٹرنیٹ تک ہوئی، اور پھر سینسر کرنے والے پڑ گئے۔

چین کے علاقے سنکیانگ میں مسلمانوں پر جبر، تیانانمن اسکوائر میں کریک ڈاؤن اور دیگر ممنوعہ موضوعات -- ایک خاص، صرف دعوت پر چلنے والی آڈیو ایپ، کلب ہاؤس کے ہنگامہ خیز، بغیر فلٹر والے چیٹ رومز میں کچھ بھی پہنچ سے دور نہ تھا۔

اس نے سیاست اور معاشرے بھر میں ممنوعات کی چیر پھاڑ کے لیے ایک نادر جگہ فراہم کی، آوازوں کی تکثیریت جسے عموماً چین کے اندر کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے خاموش کر دیا جاتا ہے۔

پھر سوموار (8 فروری) کے روز شام کو، ایک محفوظ ربط قائم کرنے کے لیے وی پی این کے بغیر لاگ ان کرنے والے چینی صارفین کے پاس ایک نقص کا پیغام ظاہر ہوا، ایک غماز علامت کہ چینی سینسر والوں نے مباحثے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔

دو ایغور نژاد خواتین اُرمچی، سنکیانگ میں گرینڈ بازار کے باہر پہرہ دے رہے نیم فوجی چینی پولیس اہلکاروں کے پاس سے گزرتے ہوئے۔ تقریباً ایک ہفتے کے لیے، چینی بولنے والے لوگ کلب ہاؤس ایپ کے ذریعے چین کے "دوبارہ تعلیم" کے کمیمپوں میں خوفناک بدسلوکیوں -- بشمول برقی جھٹکوں سے تشدد، خوراک سے محرومی، مار پیٹ، اجتماعی عصمت دری اور جبری طور پر بانجھ بنانا -- کے متعلق سننے کے قابل رہے ہیں۔ [پیٹر پارکس / اے ایف پی]

دو ایغور نژاد خواتین اُرمچی، سنکیانگ میں گرینڈ بازار کے باہر پہرہ دے رہے نیم فوجی چینی پولیس اہلکاروں کے پاس سے گزرتے ہوئے۔ تقریباً ایک ہفتے کے لیے، چینی بولنے والے لوگ کلب ہاؤس ایپ کے ذریعے چین کے "دوبارہ تعلیم" کے کمیمپوں میں خوفناک بدسلوکیوں -- بشمول برقی جھٹکوں سے تشدد، خوراک سے محرومی، مار پیٹ، اجتماعی عصمت دری اور جبری طور پر بانجھ بنانا -- کے متعلق سننے کے قابل رہے ہیں۔ [پیٹر پارکس / اے ایف پی]

کلب ہاؤس ایپ کے صارفین تائیوان کے متعلق مباحثوں سے بھی روشناش ہوئے۔ یہاں، اکتوبر میں تائیپئی میں ہانگ کانگ کے کارکنوں کی حمایت میں ایک مارچ کے اختتام پر احتجاجی مظاہرین ایک چینی پرچم نذرِ آتش کرتے ہوئے۔ [کرس سٹوورز / اے ایف پی]

کلب ہاؤس ایپ کے صارفین تائیوان کے متعلق مباحثوں سے بھی روشناش ہوئے۔ یہاں، اکتوبر میں تائیپئی میں ہانگ کانگ کے کارکنوں کی حمایت میں ایک مارچ کے اختتام پر احتجاجی مظاہرین ایک چینی پرچم نذرِ آتش کرتے ہوئے۔ [کرس سٹوورز / اے ایف پی]

ہانگ کانگ کی چینی یونیورسٹی میں مواصلات کے ایک پروفیسر، لوکمان سوئی نے کہا، "[چینی صدر شی جن پنگ کے] تحت، پابندی وقت کی بات تھی۔"

یونیورسٹی آف پیرس ایسٹ کروٹیل کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر، ایمائلی فرینکائل، جو چین میں سیاسی شرکت اور نمائندگی پر تحقیق کرتی ہیں، نے اضافہ کیا کہ سنہ 2013، جب شی صدر بنے تھے، کے بعد سے آزاد آن لائن مباحثے کے لیے جگہ "انتہائی کم" ہو چکی ہے۔

مگر ان کا مزید کہنا تھا کہ دیگر چینی بولنے والوں جیسے کہ تائیوانی ہم منصبوں کے ساتھ حساس موضوعات پر کھلی گفتگو کے لیے امکان "اگرچہ بہت پُرخطر ہے، اتنا نادر ہے کہ ۔۔۔ بہت سے لوگ ابھی بھی اسے بند کرنا چاہتے ہیں"۔

مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکیوں پر کھلی گفتگو

بیجنگ میں ٹیکنالوجی کے میدان میں نیا آغاز کرنے والی ایک مدیرہ، 30 سالہ ایلیس سُو، نے کہا کہ کلب ہاؤس پر ان کے مختصر سے وقت میں، وہ خاص طور پر ایک گفتگو سے جذباتی طور پر بہت متاثر ہوئی ہیں جس میں مسلمان ایغوروں نے سنکیانگ میں امتیاز کا نشانہ بننے کی اپنی ذاتی داستانیں بیان کی تھیں.

ایک ٹیلی فون انٹرویو میں انہوں نے دی نیویارک ٹائمز کو بتایا، "یہ حقیقتاً ایسی معلومات ہے جس تک وطن میں عموماً ہماری رسائی نہیں ہوتی۔"

پچھلے ہفتے کے روز کلب ہاؤس میں، چین کے سنکیانگ کے علاقے میں ایغوروں اور دیگر ترکی بولنے والے مسلمانوں کی اجتماعی اسیری کے متعلق بنے ایک چیٹ روم میں 1،000 سے زائد صارفین جمع ہو گئے تھے۔

حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں کا ماننا ہے کہ سنکیانگ میں کیمپوں کے اندر کم از کم ایک ملین افراد قید ہیں، مگر بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ حرفتی تربیتی مراکز ہیں جن کا مقصد اسلامی انتہاء پسندی کی طرف رغبت کو کم کرنا ہے۔

حالیہ انکشافات جن میں چین کے "دوبارہ تعلیم" کیمپوں کے اندر خوفناک مظالم کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں -- بشمول برقی جھٹکوں سے تشدد، خوراک سے محرومی، مار پیٹ، اجتماعی عصمت دری اور جبراً بانجھ بنانا -- نے چین کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بین الاقوامی برادری کی تشویشوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

کلب ہاؤس چیٹ رومز میں ایک چینی شخص کا کہنا تھا کہ اسے یقین نہیں آتا کہ وہ سنکیانگ میں مسلمانوں کے لیے "عقوبت خانوں" کی رپورٹوں پر یقین کرے یا نہ کرے۔

پھر ایک ایغور خاتون، ونیرہ ابغینی، یہ کہتے ہوئے بولیں کہ انہیں ان کی موجودگی کا یقین ہے کیونکہ ان کے رشتے دار ان لوگوں میں شامل ہیں جو حراست میں رہے ہیں۔

بعد ازاں، انہوں نے کہا کہ ایسے چینی ساتھیوں کا مقابلہ کرنے کا موقع ملنا ایک راحت ہے جو ابھی بھی سنکیانگ کے علاقے میں ان کے گھر میں بدسلوکیوں کے متعلق شبہات پالے ہوئے ہیں۔

ٹوکیو، جہاں وہ اب مقیم ہیں، سے ایک ٹیلی فون انٹرویو میں انہوں نے دی نیویارک ٹائمز کو بتایا، "میں نے اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے کئی چینلوں پر کوشش کی ہے۔ تو میں نے سوچا جبکہ مجھے بولنے کا یہ موقع ملا ہے، بہتر ہے میں اسے استعمال کر لوں کیونکہ میں کبھی بھی ایک خاموش تماشائی نہیں بننا چاہتی تھی۔"

ایغوروں کے طور پر شناخت ہونے والے کم از کم تین افراد نے کلب ہاؤس چیٹ میں اپنی ذاتی داستانیں سنائیں اور دیگر کئی نے کہا کہ وہ ہان چینی ہیں جو سنکیانگ میں رہا کرتے تھے۔

ایک خاتون نے کہا کہ اس کے خیالات اس وقت تبدیل ہوئے جب بیرونِ ملک قیام نے انہیں سنکیانگ کے متعلق مزید معلومات سے روشناس کروایا۔

ان کا کہنا تھا، "میں تو بس ایک بہت بڑے دھوکے میں رہتی رہی ہوں۔"

'حقیقی انٹرنیٹ' تک رسائی

اختتامِ ہفتہ پر چینی زبان میں بہت ساری گفتگوؤں کو وسیع طور پر توجہ ملی بشمول ٹوئٹر پر، جو بہت سے غیر ملکی سوشل نیٹ ورکس میں سے ایک ہے جن پر چین میں پابندی عائد ہے۔

ایک گفتگو سننے والی صحافی، ازابیل نیو نے اتوار کے روز ٹویٹ کیا، "چین سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون نے ابھی ابھی کلب ہاؤس پر کہا: یہ پہلی بار ہے کہ میں حقیقی انٹرنیٹ پر ہوں۔"

سوموار کے روز، 2،000 سے زائد صارفین ایک اور چیٹ روم میں جمع ہوئے جہاں 1989 میں تیانانمن اسکوائر پر خونریز کریک ڈاؤن کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی، جو چین میں ممنوع ایک اور موضوع ہے۔

عام شہریوں اور سرکاری حکام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ایک نے کہا کہ ماحول "دونوں فریقین کے لیے خطرناک" تھا، جبکہ ایک اور شخص نے یہ دعویٰ کرنے کو فرسودہ قرار دیا کہ طلباء -- جو تحریک میں شامل تھے -- کا باآسانی " برین واش کر دیا گیا تھا".

ہانگ کانگ اور تائیوان سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی چین سے متعلقہ موضوعات میں حصہ لیا، یا ان میں ثالثی کی۔

برلن کی مقامی ایک صحافی ملیسا چان نے ٹویٹ کیا، "میں کلب ہاؤس میں تائیوان کی جانب سے چلائے جانے والے ایک روم میں موجود ہوں جہاں 4،000 ماندرین بولنے والے -- بشمول چین میں اور باہر رہنے والے یغور اور ہان چینی بات کر رہے ہیں ۔۔۔ تقریباً ہر موضوع پر۔"

"جاسوسی سے لے کر، ان دوستوں تک جو دوبارہ تعلیم کے کیمپوں سے جا چکے ہیں، سے لے کر عام موضوعات تک۔"

انہوں نے 5 فروری کو ٹویٹ کیا، "میں بتا نہیں سکتی کہ کلب ہاؤس کے ان رومز میں کیا محسوس ہوتا ہے۔ وہ جزوی طور پر اعترافی محسوس ہوتے ہیں، اور لوگوں کی جانب سے تمنا کا ایک بہت بڑا احساس ہے — ہمدردی کے لیے، اظہار کے لیے، جماعت یا جمہوریت کے متعلق متضاد جذبات کے لیے۔"

ملک کی "گریٹ فائروال" کی عمومی پابندیوں کے بغیر یہ سرحد پار کے مکالمے کا ایک نادر لمحہ تھا۔

سینسرشپ، کریک ڈاؤن ناگزیر

سوموار کی رات تک، تاہم، چینی زبان کے رومز بڑی تیزی کے ساتھ ایپ پر پابندی کے معاملے پر مباحثے میں تبدیل ہو گئے۔

"میں نے دیکھا کہ بہت سے رومز آبناؤں کے پار کے امور اور حساس معاملات پر گپ شپ لگا رہے تھے ۔۔۔ اور میں نے سوچا کہ یہ ایپ زیادہ دیر نہیں چلے گی،" چینی زبان ک ایک صارف نے ایپ کے بلاک ہو جانے کے بعد تاسف کا اظہار کرتے ہوئے، تائیوان کے مشکل موضوع کی طرف اشارہ کیا.

ایک اور کو پریشانی تھی، "بلاک ہونے کے بعد یہ ہوتا ہے کہ پلیٹ فارم پر موجود افراد کی فہرستیں مرتب ہونے لگتی ہیں۔"

ٹیکنالوجی مدیر، سُو نے کہا، "یہ محض وقت کی بات تھی۔"

جب پابندی کے متعلق سوال کیا گیا، تو چینی وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار نے منگل کے روز کہا کہ وہ تفصیلات سے بے خبر ہیں مگر انہوں نے یہ اضافہ کیا: "جبکہ چین کا انٹرنیٹ کھلا ہے، چینی حکومت سے قانون اور ضوابط کے مطابق سنبھالتی ہے۔"

دی نیویارک ٹائمز کے مطابق، "کلب ہاؤس دعوتوں" کے لیے ایک تلاش، جو چینی ای کامرس ویب سائٹوں پر پہلے 10 سے 100 یوان (1.5 ڈالر سے 15 ڈالر) میں فروخت ہو رہی تھی، اب مزید کوئی نتائج نہیں دکھا رہی۔ ایپ کے بلاک ہونے سے قبل، ایک کوڈ کے لیے جانے کی قیمت 300 یوان (46 ڈالر) سے بھی زیادہ تھی۔

پابندی کے بعد سے، ایپ کی طرف واپس لوٹنے والے چینی بولنے والے افراد "گریٹ فائروال" کو جُل دینے کے طریقوں کے متعلق بات کر رہے تھے، اور کمیونسٹ پارٹی کے ایک مدیر کی طنزیہ انداز میں تعریف کرنے والا ایک چیٹ روم سرکشی سے جاری ہے۔

مگر زیادہ پچھتاوا مباحثے کے لیے ایک قیمتی جگہ کے خاتمے پر تھا جو چمکی تو تھی مگر بھڑکنے نہ دی گئی۔

ایک صارف کا کہنا تھا، "میں یہاں اس لیے آیا ہوں کیونکہ یہاں بولنے پر سینسرشپ نہیں ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500