سلامتی

لاوارث ایرانی سپاہیوں نے تہران کی موجودہ ذہنیت پر سوال اٹھا دیا

از عبدالغنی کاکڑ

گشت کرتے ہوئے پاکستانی فوجیوں کی بغیر تاریخ کے ایک تصویر۔ [آئی ایس پی آر]

گشت کرتے ہوئے پاکستانی فوجیوں کی بغیر تاریخ کے ایک تصویر۔ [آئی ایس پی آر]

کوئٹہ -- گزشتہ برس پاکستانی سرحد کے قریب ایرانی فوجیوں کے اغواء کے بارے میں صورتحال نے ایرانی حکومت کی صلاحیتوں اور ارادوں پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔

دہشت گرد تنظیم جیش العدل نے گزشتہ اکتوبر ایران کے صوبہ سیستان-بلوچستان میں پاکستان کی سرحد کے قریب اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں کے 12 ارکان کو اغواء کر لیا تھا۔

گزشتہ نومبر میں، پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ایران کے ساتھ سرحد کے نزدیکپانچ مغوی فوجیوں کو بازیاب کروا لیاتھا، اور بدھ (20 مارچ) کی شام کو بلوچستان کے ضلع چاغی میں ایک کارروائی کے دوران مزید چار فوجی بازیاب کروا لیے۔

فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ یہ کارروائی پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے 4-3 کلومیٹر کے فاصلے پر کی گئی تھی۔

جیش العدل کی ایک حالیہ ویڈیو میں ایک ایرانی مغوی فوجی کو دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

جیش العدل کی ایک حالیہ ویڈیو میں ایک ایرانی مغوی فوجی کو دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

جیش العدل کے ارکان کو گزشتہ اکتوبر میں ایک نامعلوم مقام پر دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

جیش العدل کے ارکان کو گزشتہ اکتوبر میں ایک نامعلوم مقام پر دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تافتان کے مقامی ایک سینیئر پاکستانی سیکیورٹی اہلکار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ضلع چاغی کے علاقے اموری میں پاک-افغان سرحد کے قریب کی جانے والی یہ کارروائی مخبری کی بنیاد پر ایک خصوصی آپریشن تھا۔ ہماری فوج نے دہشت گردوں کو افغان سرحد کے قریب گھیر لیا، اور بھاری دوطرفہ فائرنگ کے بعد، ملزمان مغویوں کو چھوڑ کر جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، اور پاکستان نے بازیاب کروائے گئے ایرانیوں کو مشترکہ سرحد کے قریب ان کے حکام کے حوالے کر دیا۔

ایرانی جبر

اغواء کے بعد سے، جیش العدل نے مطالبہ کیا تھا کہ ایرانی حکومت فوجیوں کے بدلے سُنی قیدیوں کو رہا کرے۔

اسلام آباد کے مقامی دفاعی تجزیہ کار، میجر (ر) عمر فاروق نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ سماجی اور سیاسی جبر ایران میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کا اہم سبب ہے۔

انہوں نے کہا، "ایرن میں، عوام نے متعصب شیعہ عالم قائدین کے خلاف آوازیں بلند کرنا شروع کر دی ہیں، اور حس روحانی کی حکومت ایرانی عوام میں خوشحالی اور مساوات نہ لانے پر کڑی تنقید کی زد میں ہے۔"

فاروق نے کہا کہ جیش العدل کا وجود "بنیادی طور پر ایرانی پالیسیوں کے جواب میں" ہے۔

انہوں نے کہا، "ایرانی حکومت کے لیے لازمی ہے کہ وہ اقلیت سنی مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیوں کو ختم کرے، جنہیں کئی دہائیوں سے ایران کے سنی بلوچ آبادی والے علاقوں میں تعصب اور وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایت ہے۔"

ان الزامات کہجیش العدل پاکستانی علاقے میں قائم ہےکا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا، "ایرانی عسکری حکام کے پاکستان کے خلاف حالیہ بیانات خود اپنی ناکامی کو چھپانے کی ایک کوشش ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت اپنے داخلی مسائل کو حل کرنے کی بجائے، پاکستان کے خلاف "بے بنیاد الزامات" عائد کر رہی ہے۔

اسلام آباد کے مقامی علاقائی امور پر تجزیہ کار، محمد طلعت نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "بنیادی طور پر ایرانی عوام حکومت کی متعصب اور انقلاب پر مرکوز پالیسیوں سے عاجز آ گئے ہیں۔"

طلعت نے کہا، "ایرانی حکومت نے تنقید کرنے والوں کے خلاف اقدامات میں بہت اضافہ کر دیا ہے، اور ریاستی مشینری ملک میں آزاد آوازوں اور اقلیتی برادریوں کی تنظیموں کو نشانہ بنا رہی ہے۔"

ایران کی سیکیورٹی کی ناکامیاں

طلعت کے مطابق عسکریت پسندی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایران کو پاکستان کے ساتھ اس کی سرحد کی حفاظت کو لازماً یقینی بنانا چاہیئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ جیش العدل کے قبضے میں ایرانی فوجی اہلکاروں کی جانوں کو خطرہ ہے، "ایسا لگتا ہے کہ ایرانی حکومت اسے [ان کی حالت کو] سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔"

دہشت گرد گروہ کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں مغویوں میں سے ایک نے کہا، "ایران میں ہماری کوئی قدر نہیں ہے؛ ہماری رہائی کے لیے ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں [ایرانی حکام] نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کچھ کریں گے، مگر بدقسمتی سے پانچ ماہ ہو چکے ہیں، اور ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا۔"

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کوئٹہ کے مقامی ایک سیکیورٹی اہلکار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، اس کی بجائے، ایرانی سیاسی اور عسکری قائدین ابھی پاکستانی حکام کے ساتھ متواتر رابطے میں ہیں اور مغویوں کی رہائی کے لیےمدد کرنے کی درخواستکر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، "تہران نے ہماری فوج کے ساتھ مل کر مشترکہ کارروائیاں کرنے کی بھی پیشکش کی ہے۔ پہلے ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس دہشت گردوں کی پاکستانی سرزمین پر موجودگی کا ثبوت ہے مگر ابھی تک کوئی قابلِ کارروائی ثبوت نہیں دیا گیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے اور اضافی دستے تعینات کر رہا ہے۔ "ایران کے علاقوں شورش زدہ سیستان-بلوچستان اور چاہ بہار میں پرتشدد کارروائیاں ایرانی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد تنظیم جیش العدل نے خود کئی بار اعلان کیا ہے کہ اس کے تمام ارکان ایرانی میں ہیں اور یہ کہ اس نے پاکستان سے کبھی بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔

تجزیہ کار نے کہا، "اگر اس کی سرزمین پر دہشت گرد قابو میں نہیں ہیں اور آزادانہ طور پر اپنی کارروائیاں کرتے پھرتے ہیں تووہ بھی ایران کی ہی ناکامی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 6

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ریالڈ مکالہ۔ پاکستان اور طرفین کو اس امر کو قبول کرنا چاہیئے کہ ایران مسلمان ہمسایہ ہے۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے قبل ہمیں پاکستان سے فرقہ ورانہ تشدد کو ختم کرنا ہو گا۔۔۔ ایران میں کوئی فرقہ ورانہ قتل نہیں ہوئے، جیسا کہ پاکستان میں گزشتہ دو سے تین دہائیوں میں دیکھا گیا۔

جواب

طلعت نے کہا، "ایران نے ناقدین کے خلاف اپنے اقدامات سخت تر کر دیے ہیں، اور ریاستی مشینری ملک میں آزاد آوازوں اور اقلیتوں کی تنظیموں کو ہدف بنا رہی ہے۔" کچھ ایسا ہی ہے جیسا آج کل ایف آئی اے سوشل میڈیا کو پاک کرنے کے لیے کاشوگی فعالیت پسندوں کے خلاف کر رہا ہے۔ کیا ہی دوغلا پن ہے۔

جواب

یہ اخبار صرف ایران مخالف پالیسی پہ عمل کر رہی ھے حقیقت کا اس سے دور دور تک کوئی واسطہ ہی نھیں ھے یہ صرف تفرقہ بازی ھے.

جواب

مرگ بر ایران پاکستان زندہ باد

جواب

پاکستان کی طرف سے فوجیوں کو بچایا ہی کیوں گیا تھا؟ کیا ہماری سرزمین سے ان گروہوں کو کاروائی کرنے کی اجازت دینا ہماری ناکامی نہیں؟

جواب

Yeh bilkul theek khabar hai.

جواب