سلامتی

اویس علی شاہ کی رہائی نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر اعتماد قائم کیا

ضیاء الرّحمٰن

18 جولائی کو کراچی میں سندھ کی عدالتِ عالیہ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے اغوا شدہ بیٹے اویس علی شاہ کی رہائی کے مطالبہ کے لیے بار ایسوسی ایشن کے متعدد رہنما کراچی میں جمع ہیں۔ پاکستانی افواج نے چھوٹے شاہ کو ایک روز قبل ضلع ٹانک سے بازیاب کرایا۔ [ضیاء الرّحمٰن]

18 جولائی کو کراچی میں سندھ کی عدالتِ عالیہ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے اغوا شدہ بیٹے اویس علی شاہ کی رہائی کے مطالبہ کے لیے بار ایسوسی ایشن کے متعدد رہنما کراچی میں جمع ہیں۔ پاکستانی افواج نے چھوٹے شاہ کو ایک روز قبل ضلع ٹانک سے بازیاب کرایا۔ [ضیاء الرّحمٰن]

کراچی — سندھ کی عدالتِ عالیہ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس علی شاہ کے 29 روز تک طالبان کے پاس یرغمال رہنے کے بعد بحفاظت رہائی پر پاکستانی قانونی برادری نفاذِ قانون اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پذیرائی کر رہی ہے۔

قانونی مشاہدین کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس پر مبنی رہائی ججوں، وکلاء اور ان کے اہلِ خانہ کے تحفظ سے متعلق حکومت کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کی غمّاز ہے۔

ایک کامیاب آپریشن

20 جون کو کراچی میں نامعلوم نقاب پوش افراد نے قانون دان اویس کو اغوا کیا۔

19 جولائی کو پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں نے ضلع ٹانک، خیبر پختوا (کے پی) میں سے اویس کو رہا کرایا۔

پاک فوج کے ترجمان لفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ ایک مقابلہ کے بعد جس میں تین اغوا کنندگان مارے گئے، سیکیورٹی فورسز نے اویس کو تینوں اغوا کنندگان کی لاشوں کے ساتھ ایک گاڑی کے اندر پایا۔

ٹانک جنوبی وزیرستان کے قریب ہے اور ایسے علاقہ میں واقع ہے جہاں پاک فوج جون 2014 میں شروع ہونے والی انسدادِ دہشتگردی کی جارحانہ کاروائی آپریشن ضربِ عضب سرانجام دے رہی ہے۔

باجوہ نے کہا کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا ایک دھڑا اور القاعدہ کے ارکان اویس کے اغوا میں ملوث تھے۔

باجوہ نے مزید کہا کہ اغوا کنندگان – جو ممکنہ طور پر اویس کو افغانستان منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے – کو ہلاک کرنے والے فوجیوں کو ان دہشتگردوں کے قبضہ سے اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد ملا۔

باجوہ نے کہا کہ پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اویس کی بازیابی کا آغاز کرنے والی افواج کی پذیرائی کی اور اویس کے والدین کو مبارکباد دی۔

دہشت پھیلانے کے لیے اعلیٰ پائے کے اغوا کی کوششیں

حالیہ برسوں میں دہشتگردوں نے دیگر اہم شخصیات کے اغوا بھی کیے ہیں، جن میں پنجاب کے مرحوم گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر اور سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی شامل ہیں۔

سیکیورٹی فورسز نے تقریباً پانچ برس یرغمال رہنے کے بعد مارچ میں صوبہ بلوچستان سے شہباز کو بازیاب کرایا۔ افغان افواج نے تقریباً تین برس یرغمال رہنے کے بعد مئی میں صوبہ غزنی، افغانستان سے علی کو رہا کرایا۔

باجوہ نے شہباز اور علی کے اغوا سے متعلق کہا، ”وہ دہشت پھیلانا چاہتے تھے۔“

19 جولائی کو کراچی میں دیر گئے اویس پرمسرت طور پر اپنے خاندان سے ملے۔

سیکیورٹی امور کی نگرانی کرنے والے اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی طاہر علی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اویس کے اغوا نے کراچی کے رہائشیوں میں بالعموم اور مقامی عدلیہ میں بالخصوص خوف و ہراس پھیلا دیا تھا۔

علی نے کہا، ”ممکن ہے کہ وہ چوٹی کے زیرِ حراست شرپسندوں کی رہائی کے بدلے اویس کو استعمال کرنا چاہتے ہوں۔“

علی نے کہا کہ اویس کی رہائی نے نفاذِ قانون اور حکومت پر عوامی اعتماد کو بحال کیا ہے۔

وکلاء کی جانب سے آپریشن کی پذیرائی

اویس کے اغوا سے اب تک کراچی میں سول سوسائیٹی کے گروہوں اور وکلاء کی ایسوسی ایشنز نے ان کی تیزتر بازیابی پر زور دینے کے لیے متعدد احتجاج منظم کیے۔

کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر محمود حسن نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 18 جولائی کو کراچی میں متعدد بار ایسوسی ایشنز کے فیصلہ کیا تھا کہ اگر اویس مزید ایک ہفتہ تک یرغمال رہے تو ایک احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔

اس ملاقات کے صرف ایک ہی روز بعد اویس کی بازیابی نے ابتدائی مراحل کے اس احتجاج کا خاتمہ کر دیا۔ حسن نے اویس کے بحفاظت اپنے خاندان میں پہنچنے کے لیے حکومت کی محنت پر بار ایسوسی ایشنز کے لیے اظہارِ تحسین کیا۔

کراچی کے ایک وکیل سید ماجد حسین نے اویس کے گھر کے باہر کہا، ”اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب نفاذِ قانون کی ایجنسیاں اغوا کے کسی بھی واقعہ کو حل کرنے کی صلاحیّت رکھتی ہیں۔“

انہوں نے اس پیش رفت کے لیے کراچی اور قبائلی علاقہ جات میں انسدادِ دہشتگردی کے آپریشنز کی پذیرائی کرتے ہوئے پاکستان فارورڈ کو بتایا ”ماضی سے غیر مماثل ۔۔۔ اب اغوا کنندگان طویل عرصہ تک یرغمالوں کو نہیں رکھ سکتے۔“

ججوں، ان کے اہلِ خانہ کے لیے بہتر سیکیورٹی

حکام نے ججوں، وکلاء اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے بہتر سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کیا ہے۔

پاکستان کے چیف جسٹس (سی جے پی) انور ظہیر جمالی نے 18 جولائی کو اسلام آباد میں قانون اور سلامتی کے عہدیداران کی ایک کانفرنس میں تمام صوبائی چیف سیکریٹریز اور صوبائی پولیس سربراہان کو ججوں اور ان کے اہلِ خانہ کو مزید تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے قانونی مشیر، کراچی سے تعلق رکھنے والے مرتضیٰ وہاب صدیقی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومتِ سندھ ججوں اور ان کے اہلِ خانہ کے تحفظ کے لیے ایک پروگرام پر کام کر رہی ہے۔

شاہ نے 17 جولائی کو عدلیہ کے تحفظ کے لیے ایک علیحدہ پولیس فورس تشکیل دینے کا حکم دیا۔

صدیقی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تحفظ کے لیے تقریباً 1,200 پولیس اہلکار تعینات ہیں، جبکہ نچلی عدالتوں کے لیے 2,600 سے زائد پولیس اہلکار معین ہیں۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500