تجزیہ

الظواہری کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کا گٹھ جوڑ یمن منتقل ہو سکتا ہے

از نبیل عبداللہ التمیمی

3 مئی 2016 کو لی گئی ایک تصویر میں، یمنی بندرگاہ المکلہ میں القاعدہ کے ایسے کتبے نظر آ رہے ہیں جن میں مقامی آبادی کو احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت یمن کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ [اسٹرنگر/ اے ایف پی]

3 مئی 2016 کو لی گئی ایک تصویر میں، یمنی بندرگاہ المکلہ میں القاعدہ کے ایسے کتبے نظر آ رہے ہیں جن میں مقامی آبادی کو احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت یمن کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ [اسٹرنگر/ اے ایف پی]

عدن -- یمن سے تعلق رکھنے والے محققین نے المشارق کو بتایا کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ القاعدہ اپنی مرکزی طاقت کی بنیاد یمن میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ وہ افغانستان میں اپنے سابق رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔

الظواہری کو گزشتہ جولائی میں کابل میں امریکی ہیل فائر نامی میزائل کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا تھا، جس سے جانشینی کے ایک پریشان کن عمل کا راستہ کھل گیا تھا جس نے ایران میں مقیم مصری انتہا پسند سیف العدیل کو گروپ کے نئے رہنما کے طور پر ابھرتے ہوئے دیکھا ہے۔

ایران - جس کی القاعدہ کے رہنماؤں کو پناہ دینے کی تاریخ ہے - العدیل کی قیادت کے مقام سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار کھڑا ہے، یمن میں العدیل کی حکمرانی کو دیکھتے ہوئے، جہاں شدت پسند گروپ کو ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

محققین اور تجزیہ کاروں نے نوٹ کیا ہے کہ حوثیوں اور القاعدہ کے کچھ مشترکہ دشمن اور کچھ مشترکہ مقاصد ہیں۔

ایف بی آئی کی طرف سے 10 اکتوبر2001 کو جاری کی گئی ایک نامعلوم تاریخ کی تصویر میں القاعدہ کے رہنما سیف العدیل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ [ایچ او-ایف بی آئی/ اے ایف پی]

ایف بی آئی کی طرف سے 10 اکتوبر2001 کو جاری کی گئی ایک نامعلوم تاریخ کی تصویر میں القاعدہ کے رہنما سیف العدیل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ [ایچ او-ایف بی آئی/ اے ایف پی]

فروری 2014 کی اس فائل تصویر میں، ایک صومالی فوجی موغادیشو میں الشباب مخالف ریلی کے دوران، القاعدہ کے اس وقت کے رہنما ایمن الظواہری کی تصویر والے کتبے کی طرف اپنے ہتھیار سے اشارہ کر رہا ہے۔ [عبدالفتاح ہاشی نور/اے ایف پی]

فروری 2014 کی اس فائل تصویر میں، ایک صومالی فوجی موغادیشو میں الشباب مخالف ریلی کے دوران، القاعدہ کے اس وقت کے رہنما ایمن الظواہری کی تصویر والے کتبے کی طرف اپنے ہتھیار سے اشارہ کر رہا ہے۔ [عبدالفتاح ہاشی نور/اے ایف پی]

سیاسی تجزیہ کار محمود الطاہر نے صنعا میں حوثی/القاعدہ کے ایک مشترکہ آپریشن روم کے قیام کی طرف اشارہ کیا جو یمن کے حکومت کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو مربوط کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ ایران کی طرف سے حوثیوں کو اسلحہ اسمگل کرنے کی ایک طویل تاریخ موجود ہے اور یہ کہ ایرانی ہتھیار، حوثیوں کے زیر کنٹرول صنعا سے، القاعدہ کی صومالیہ کی شاخ الشباب کو اسمگل کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے یمن، القاعدہ کے لیے ایک پرکشش مقام بن جاتا ہے، اور جہاں سے ایران بھی فائدہ اٹھانے کے قابل ہے، اس کے العدیل کے ساتھ قریبی تعلقات کے پیش نظر -- خاص طور پر اگر العدیل کو القاعدہ کے سرکاری رہنما کے طور پر نامزد کیا جاتا ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایران، العدیل کو یمن منتقل کرنے کا خواہاں ہے، جب کہ دوسرے کہتے ہیں کہ ایران نہیں چاہتا کہ وہ وہاں سے جائے اور ممکنہ طور پر ایرانی کنٹرول سے باہر نکل جائے۔

توسیع کے لیے زرخیز زمین

جولائی 2022 کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی رپورٹ کے مطابق، جزیرہ نما عرب میں القاعدہ (اے کیو اے پی) اب بھی دہشت گردانہ حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

"دولتِ اسلامیہ" (داعش) اور القاعدہ سے متعلق کمیٹی کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق، اپنے آپ کو پہنچنے والے نقصانات کے باوجود، اے کیو اے پی جزیرہ نماعرب میں ایک مستقل خطرہ ہے۔

اس نے گروہ اور حوثیوں کے درمیان تعاون کو نوٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطرہ اب پھیل رہا ہے، کیونکہ یہ گروپ بین الاقوامی حملے کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار فارس البیل نے المشارق کو بتایا کہ "یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ ایران، القاعدہ کو کنٹرول کر رہا ہے اور القاعدہ کے رہنماؤں کی پالیسیوں اور عمل میں ہیرا پھیری کر رہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ ایران "یمن کو دہشت گردی کی توسیع کے لیے ایک زرخیز ماحول کے طور پر دیکھتا ہے"، اور وہ حوثیوں اور القاعدہ کے درمیان تعاون کے موروثی تضادات سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔

انہوں نے حوثیوں اور القاعدہ کے درمیان باہمی تعاون کی طرف اشارہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ "وہ ایک دوسرے کی ہو بہو تصاویر ہیں، یا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور اس کا ثبوت البیضاء اور ردا میں القاعدہ کے عناصر کے ساتھ حوثیوں کے معاملات اور ثناء میں اس کے داخلے کے وقت [القاعدہ] کے قیدیوں کی رہائی ہے۔"

البیل کے مطابق، ایران "القاعدہ کی قیادت کو یمن منتقل کرنے کو، حوثیوں کی طاقت اور ہتھیاروں اور یمن میں اس کے [ایران کے] اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے جواز کے طور پر دیکھتا ہے"۔

یمن کے نائب وزیر انصاف فیصل المجیدی نے کہا کہ ایران کو القاعدہ پر کچھ اثر حاصل ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران نے القاعدہ کے بہت سے رہنمائوں کی میزبانی کی جنہیں عراق اور افغانستان سے زبردستی نکالا گیا اور بعد کے مراحل میں انہیں شام، عراق اور یمن کے کچھ ایسے حصوں میں استعمال کیا گیا "جب اسے ان علاقوں میں فوجی شکست کا احساس ہوا جہاں اس کی موجودگی تھی"۔

المجیدی نے کہا کہ "ایران پر کبھی بھی خطے میں امن اور استحکام کے اتحادی کے طور پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ ایک طرف تو شیعہ سمت سے انتہا پسندی کی پیروی کرتا ہے اور دوسری طرف، سنی سمت سے انتہا پسندی کی حمایت کر کے اسے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔"

سیف العدیل اور یمن

سیاسی تجزیہ کار فیصل احمد نے کہا کہ "القاعدہ کے رہنما سیف العدیل کو اے کیو اے پی کی حمایت اور مدد حاصل ہے اور وہ اس شاخ کے سرکردہ رہنما خالد بطرفی کی طرف سے بیعت رکھتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "اسے شاخ کے بیشتر رہنماؤں کی حمایت بھی حاصل ہے، خاص طور پر سعد العولقی، جو جزیرہ نما عرب میں گروہ کی شاخ کی قیادت کے لیے باترفی سے مقابلہ کرنے والے سب سے نمایاں رہنما تھے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ العدیل اے کیو اے پی کی نگرانی کرتا ہے "اور اسے اس کی تعمیل اور فرمانبرداری حاصل ہے، جیسا کہ شام میں گروہ کی شاخ کی مدد کرنے کے لیے اُس کو بھیجی گئی مالی امداد سے ظاہر ہوتا ہے، اور القاعدہ کی زیادہ تر شاخوں کی حمایت بھی اسے حاصل ہے"۔

فروری کے ایک تجزیے میں، صنعا سینٹر فار اسٹریٹجک اسٹڈیز نے تجویز کیا ہے کہ الظواہری کی موت کے بعد القاعدہ کی قیادت کے مستقبل کے لیے تین ممکنہ منظرنامے ہیں۔

پہلا ایک نئے امیر کی تقرری ہے، جو سیف العدیل کا مدمقابل ہو گا اور آخرالذکر ایک حقیقی رہنما کے طور پر موجود رہے گا خاص طور پر شام، یمن اور صومالیہ میں گروہ کی شاخوں کی غیر ملکی کارروائیوں اور عمومی نگرانی کے حوالے سے۔

دوسرا ایک پیچیدہ منظر نامہ ہے اور اس میں یا تو العدیل کے وفادار نئے امیر کی تقرری اور جنرل کمانڈ سینٹر کی افغانستان سے باہر منتقلی (زیادہ امکان ہے کہ یمن میں) شامل ہے۔

اس نے کہا کہ اس منظر نامے میں، بطرفی اپنی طاقت اور مالی وسائل کے پیش نظر، ممکنہ طور پر ایک امیدوار، یا متبادل طور پر الشباب کی ایک شخصیت ہوں گے۔

تیسرا -- اور سب سے زیادہ ممکنہ -- منظر نامہ، العدیل کی القاعدہ کے نئے امیر کے طور پر باضابطہ تقرری ہے، جس کی وجہ سے غالباً ان کی ایران سے یمن، صومالیہ یا افغانستان روانگی ضروری ہو گی۔

احمد نے کہا کہ "ایران ایسا ہوتا دیکھنے اور سیف العدیل کو نیا راہنما بنانے کے لیے کام کر رہا ہے تاکہ اس کی تمام سرگرمیوں کو کنٹرول کیا جا سکے۔"

انہوں نے کہا کہ ایران نے یمن کے حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں القاعدہ کے رہنماؤں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی ہیں اور گروپ کے رہنماؤں کو جیلوں سے رہا کر دیا ہے۔

انہوں نے یہ تجویز کرتے ہوئے کہ یہ سب کچھ العدیل کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے، کہا کہ اس نے القاعدہ کے ایسے رہنماؤں کی بھی میزبانی کی ہے جو یمنی فوج کے ساتھ لڑائی کے بعد جنوبی علاقوں سے وہاں سے بھاگ گئے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500