جرم و انصاف

انٹرنیٹ میں جاری خلل تہران کے بغاوت سے متعلق بڑھتے ہوئے خوف کو ظاہر کرتا ہے

پاکستان فارورڈ

متعدد ایرانی ارکانِ پارلیمان اس مسودۂ قانون سے متفق نہیں ہیں، جو صارفین کی انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کرتا ہے۔[فارارو]

متعدد ایرانی ارکانِ پارلیمان اس مسودۂ قانون سے متفق نہیں ہیں، جو صارفین کی انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کرتا ہے۔[فارارو]

جنوب مشرقی ایران کے سیستان اور بلوچستان کے صوبوں میں، زاہدان میں ہر ہفتے نمازِ جمعہ کے دوران انٹرنیٹ رابطہ میں خلل ڈال دیا جاتا ہے۔

مشاہدین کا کہنا ہے کہ ایران میں دیکھی گئی انٹرنیٹ بندشوں کی یہ روش اس امر کا ثبوت ہے کہ حکومتِ ایران کو ابھی بھی ستمبر میں ماشا امینی کی موت سے پھوٹ پڑنے والے معروف احتجاج کی وجہ سے ہل کر رہ جانے والے اس ملک میں بغاوت کا خوف ہے۔

نتیجتاً حکومتِ امریکہ نے دو ٹیکنالوجی کمپنیوں اور دو افراد پر ایران میں انٹرنیٹ سنسرشپ میں ان کے کردار کی وجہ سے پابندی عائد کر دی۔

2 جون کو امریکی وزارتِ خزانہ نے ایرن اساسی ٹیکنالوجی کمپنی ”اروان کلاؤڈ“، اس کے دو اعلیٰ ملازمین اور اس کی ایک متحدہ عرب امارات اساسی ملحقہ کمپنی کو حکومتِ ایران کی جانب سے انٹرنیٹ سنسرشپ میں تسہیل کاری پر نامزد کیا۔

ایران میں متعدد دکانیں جن میں سے چند سافٹ ویئر یا کمپیوٹر کی دکانیں بھی نہیں، وی پی این فروخت کر رہی ہیں۔ تصویر میں دکھائی گئی دکان کھڑی پر آویزاں تشہیر کے مطابق گری دار و خشک میوہ جات – اور اب حال میں وی پی این بھی – فروخت کرتی ہے۔ [خبرآن لائن]

ایران میں متعدد دکانیں جن میں سے چند سافٹ ویئر یا کمپیوٹر کی دکانیں بھی نہیں، وی پی این فروخت کر رہی ہیں۔ تصویر میں دکھائی گئی دکان کھڑی پر آویزاں تشہیر کے مطابق گری دار و خشک میوہ جات – اور اب حال میں وی پی این بھی – فروخت کرتی ہے۔ [خبرآن لائن]

امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ آروان کلاؤڈ نے ایران کی جانب سے ایرانیوں کو عالمی انٹرنیٹ سے منقطع کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ایک ملک گیر انٹرانیٹ نیشنل انفارمیشن نیٹ ورک (این آئی این) بنیادی ڈھانچے کی تشکیل میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔

کہا گیا کہ اس کمپنی کے ایران کی انٹیلی جنس سروسز، بشمول وزارتِ انٹیلی جنس و سیکیورٹی (ایم او آئی ایس) کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔

وزارتِ خزانہ کے انڈر سیکریٹری برائے دہشتگردی و مالیاتی انٹیلی جنس برائن ای۔ نیلسن نے کہا، ”معلومات تک آزادانہ اور غیر مسدود رسائی، ایران میں رہنے والوں سمیت، تمام افراد کا بنیادی حق ہے۔“

انہوں نے کہا، ”امریکہ آزادئ اظہار صلب کرنے اور اختلاف کو دبانے کی کوشش کرنے والوں کا احتساب کرنے اور اپنے شہریوں کو یہ حق دینے سے انکار کرنے والی حکومتوں سے مطالبہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔“

حکومتِ ایران نے گوگل اور بِنگ جیسے سرچ انجن، یوٹیوب جیسی بڑی ویب سائیٹس، اور فیس بک اور ٹویٹر سمیت متعدد سوشل میڈیا ویب سائیٹس کو طویل عرصہ سے فلٹر کر چکی ہے۔

اس نے اپنی تازہ ترین پابندیوں میں، مزید ویب سائیٹس اور انسٹنٹ میسیجنگ ایپلیکیشنز، بشمول واٹس ایپ، ٹیلی گرام، سنیپ چیٹ، میڈیم اور انسٹاگرام کو فلٹر کیا ہے۔ ایرانیوں نے کسی بھی دیگر ویب سائیٹ یا ایپلیکیشن سے زیادہ انسٹاگرام کو استعمال کیا ہے۔

ایران میں انٹرنیٹ سنسرشپ کی تاریخ

حکومتِ ایران 1998 سے ملک میں انٹرنیٹ کو تسلسل کے ساتھ فلٹر کر رہی ہے، جب عوام شروع میں انٹرنیٹ سے واقف ہوئی۔

ایران کئی برسوں سے انٹرنیٹ سنسرشپ کے معاملہ میں دنیا کے بدترین ممالک میں سے رہا ہے۔

عوامی بدامنی کے دنوں میں اس حکومت کی جانب سے فلٹر کیا جانا بطورِ خاص قابلِ توجہ رہا ہے۔ متعدد ایرانی صارفین نے مخصوص ویب سائیٹس پر مواد تک رسائی کی غرض سے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی اینز) خریدے۔

2021 میں ایران کی مجلس (پارلیمان) نے ایک ایسا مسودۂ قانون منظور کرانے پر بحث کی جو اس طور سے انٹرنیٹ رسائی کو محدود کرے کہ حکومت اس امر پر مکمل قدرت رکھتی ہو کہ صارفین کیا تلاش کریں اور کون سی ویب سائیٹس پر جائیں۔

”سائیبر پروٹیکشن بل“ ایک ”قومی انٹرنیٹ“ – بنیادی طور پر ایک انٹرنیٹ، جو حکومت کی جانب سے دی گئی ایک ”قانونی وی پی این سکیم“ کے ذریعے تشکیل دیا جائے – کا متقاضی ہے، جسے ملک میں ہر کسی کو عالمی انٹرنیٹ سے رابطہ قائم کرنے کے لیے بائی پاس کرنا ہو گا۔

اس طرح صارفین کو ایک وی پی این کنکشن کے لیے درخواست دینا ہو گی، مطلب حکومت کی جانب سے کہیں اعلیٰ درجے کے کنٹرول اور نگرانی ہو گی۔

یہ مسودۂ قانون متعدد، یہاں تک کہ چند قدامت پسند سیاست دانوں میں بھی غیر معروف ہے۔

اگرچہ فی الوقت ایران کی مجلس بکثرت قدامت پسندوں پر مشتمل ہے، تاہم اس نے تاحال اس مسودہ کو منظور نہیں کیا – اور نہ ہی رائے کے لیے رکھا گیا ہے۔

لیکن جب ستمبر میں وسیع پیمانے پر عوامی احتجاج – جو 1979 کے انقلابِ اسلامی کے بعد سے سب سے بڑے تھے – کا آغاز ہوا، تو حکومت اور سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) نے کئی گنا شدت سے انٹرنیٹ کو فلٹر کرنے کا آغاز کر دیا۔

یہاں تک کہ انہوں نے واٹس ایپ اور ٹیلی گرام جیسی میسیجنگ ایپلیکیشنز کو بھی فلٹر کیا جنہیں ماضی میں ہمیشہ فلٹر نہیں کیا جاتا تھا۔

وی پی این پھلانگنا

کرمانشا، ایران میں ایک 42 سالہ فارماسسٹ نے کہا، ”مجھے قریباً ہر ماہ ایک نیا وی پی این خریدنا پڑتا ہے۔“

اس نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھے جانے کی شرط پر المشرق کو بتایا، ”زیادہ مہنگے وی پی این زیادہ قوی ہوتے ہیں، لیکن میں ہر ماہ انہیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ بعض اوقات، مجھے ایک ماہ میں ایک سے زائد وی پی این خریدنا پڑتے ہیں، اور میں ایک وی پی این سے دوسرے پر پھلانگتا رہتا ہوں“

ایرانی حکام سیکیورٹی فورسز کی جانب سے احتجاج کنندگان پر کریک ڈاؤن کو دنیا کی نگاہوں سے دور رکھنا چاہتے تھے، لہٰذا انہوں نے شہریوں اور شہری صحافیوں کے لیے بذریعہ انٹرنیٹ فوٹو اور ویڈیو ارسال کرنے کو مشکل بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔

لیکن احتجاج کم ہو جانے پر بھی، انٹرنیٹ کنکشنز بحال نہیں کیے گئے، اور آج بھی، انٹرنیٹ نہایت سست رو ہے اور کسی وی پی این کے بغیر اس کا استعمال قریباً ناممکن ہے۔

متعدد خبروں کے مطابق، 2022 میں ایران نے انٹرنیٹ سنسرشپ کے معاملہ میں دنیا میں دوسرا نمبر حاصل کیا۔

سائیبرسیکیورٹی اور رازداری کو بہتر بنانے کے مقصد کی حامل ایک برطانیہ اساسی صارف موافق ویب سائیٹ نے ظاہر کیا کہ ایران 2023 میں بھی انٹرنیٹ سینسرشپ کے حوالہ سے دوسرے نمبر پر ہے۔

یہ اسلامی جمہوریہ برما، ترکمانستان اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ساتھ اس مقام میں شریک ہے۔

تہران نے ”ڈی این ایس ری ڈائریکشن“ استعمال کرتے ہوئے شہریوں کے انٹرنیٹ رابطہ کو محدود کیا ہے، جس کے ذریعے ایک صارف ایک حقیقی پروٹوکول کے بجائے مینیپولیٹِڈ انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) ایڈریس سے مربوط ہوتا ہے۔

چند تجزیہ کاروں نے ایران کے انٹرنیٹ سنسرشپ کے تکنیکی پہلوؤں کو پیرنٹل کنٹرول فلٹرنگ نظام سے جوڑا ہے۔

جبکہ انٹرنیٹ عام ایرانیوں کے لیے شدید فلٹر شدہ ہے، حکام اور ریاستی میڈیا اپنے ذاتی پراپیگنڈا کے لیے آزادانہ طور پر مسلسل ٹویٹر اور انسٹاگرام استعمال کرتے ہیں۔

شہریوں کی زندگیوں میں خلل

حالیہ برسوں میں ایرانی شہریوں میں مختلف کاروباروں کے فروغ اور مصنوعات کی فروخت کے لیے انٹرنیٹ کے استعمال کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے، تاہم انٹرنیٹ میں خلل کے ساتھ متعدد متاثر ہو رہے ہیں۔

جن شہریوں کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک ہیں، وہ بھی ان سے رابطہ میں رہنے کے لیے انٹرنیٹ پر انحصار کرتے ہیں، اور اب وہ اس سہولت سے محروم ہیں، چہ جائے کہ وہ وی پی این خریدیں۔

ایک 68 سالہ ایرانی خاتون، جن کے بچے آسٹریلیا اور کینیڈا میں مقیم ہیں، نے کہا، ”میں بیرونِ ملک مقیم اہلِ خانہ سے رابطہ کے لیے کوگل میٹ استعمال کرتی رہی ہوں، جو کہ فلٹرڈ نہیں ہے۔“

انہوں نے المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا، ”میرے متعدد اقارب اور دوست ایسا ہی کر رہے ہیں۔ گوگل میٹ کے لیے بھی آپ کو ایک قوی وی پی این درکار ہے، کیوںکہ بات صرف میسیجنگ ایپلی کیشن کی نہیں؛ مسئلہ یہ ہے کہ کنکشن نہایت سست ہے۔“

”کم از کم کچھ تو ہے، اگرچہ کالز کا معیار ہمیشہ اچھا نہیں ہوتا، اور متعدد مرتبہ ہم ویڈیو کی خصوصیت استعمال نہی کر پاتے کیوںکہ میرے پاس مہنگا وی پی این نہیں ہے۔“

انہوں نے کہا، ”میں امّید کرتی ہوں کہ یہ گوگل میٹ کو بھی فلٹر نہ کرنا شروع کر دیں۔ تب مجھے نہیں معلوم میں اپنے بچوں اور ان کے بچوں سے کیسے بات کر پاؤں گی۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500