سلامتی

داعش کے یورپ پر حملوں کا منصوبہ ساز شام میں امریکی حملے میں مارا گیا

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ایک شخص اس جگہ کا معائنہ کر رہا ہے جہاں 12 جولائی کو، شمالی شام میں جنڈیرس کے قریب، خلتان گاؤں کے قریب امریکی ڈرون حملے میں داعش کے رہنما مہر العجل کو ہلاک کر دیا گیا۔ [رامی السید/ اے ایف پی]

ایک شخص اس جگہ کا معائنہ کر رہا ہے جہاں 12 جولائی کو، شمالی شام میں جنڈیرس کے قریب، خلتان گاؤں کے قریب امریکی ڈرون حملے میں داعش کے رہنما مہر العجل کو ہلاک کر دیا گیا۔ [رامی السید/ اے ایف پی]

شام میں امریکی حملے کے نتیجے میں ایک سینئر دہشت گرد رہنما ہلاک ہو گیا ہے۔

امریکی فوج نے گزشتہ ہفتے شام میں "یکطرفہ حملہ" کیا تھا جس میں "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے ایک سینئر رہنما کو ہلاک کر دیا گیا تھا جو یورپ میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا ذمہ دار تھا۔

امریکی فوج کی سینٹرل کمان (سینٹکام) نے کہا ہے کہ 3 اپریل کو شمال مغربی شام میں ہونے والے حملے میں داعش کے سینئر رہنما خالد عید احمد الجبوری ہلاک ہو گئے ہیں۔

اس نے کہا ہے کہ الجبوری "یورپ میں (داعش) کے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا ذمہ دار تھا"۔

اس نے یہ بات نوٹ کرتے ہوئے کہ اس کی موت سے "عارضی طور پر تنظیم کی بیرونی حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت میں خلل پڑ جائے گا" مزید کہا کہ اس نے "داعش کے لیے قیادت کا ڈھانچہ بھی تیار کیا تھا"۔

اس بیان میں الجبوری کی موت کا مقام نہیں بتایا گیا ہے۔

لیکن شامی آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق، الجبوری کو شمال مغربی صوبے ادلب میں مارا گیا، جس پر زیادہ تر حزبِ مخالف اور شدت پسند گروپوں کا قبضہ ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ وہ ایک ڈرون حملے میں اس وقت مارئے گئے جب وہ اس جگہ کے قریب جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے، کھلے آسمان کے نیچے چہل قدمی کرتے ہوئے فون پر بات کر رہے تھے۔

آبزرویٹری کے مطابق، الجبوری، جو خود کو شامی شہری ظاہر کر رہے تھے، نے دو ہفتے قبل اس علاقے میں پناہ حاصل کی تھی۔

امریکی افواج نے حالیہ برسوں میں شام میں داعش کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے ساتھی افواج کے ساتھ مل کر متعدد کارروائیاں کی ہیں، جن میں شامی ڈیموکریٹک فورسز(ایس ڈی ایف) بھی شامل ہیں۔

ایک مستقل خطرہ

یہ تازہ ترین حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب شام میں داعش کے حملے جاری ہیں۔

آبزرویٹری نے کہا کہ اس نے 2023 کے اوائل سے اب تک، کرد خود مختار انتظامیہ کے زیر کنٹرول شام کے علاقوں میں حملوں اور دھماکوں سمیت داعش کی 46 کارروائیوں کی دستاویز سازی کی ہے۔

اس نے کہا کہ ان میں 33 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں پانچ عام شہری بھی شامل تھے۔

شام کے مشرقی ریگستان (بادیہ) میں، داعش نے ٹرفل (ایک کھمبی) کو تلاش کرنے والوں پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، اس سیزن میں اب تک 150 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

آبزرویٹری کے مطابق، کچھ کے گلے کاٹ دیئے گئے تھے، جب کہ دوسروں کو اغوا کر کے پھر قتل کر دیا گیا تھا اور گزشتہ ہفتے ان میں سے چار کی لاوارث لاشیں دریافت ہوئی تھیں۔

سرحد کے پار عراق میں، عراقی فوج نے مارچ میں ملک کے مغرب اور مشرق میں داعش کے متعدد ٹھکانوں پر چھاپے مارے اور بڑی تعداد میں شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا جن میں غیر ملکی جنگجو اور گروہ کے رہنما بھی شامل تھے۔

عراقی حکام اور دیگر ذرائع نے کہا کہ داعش کمزور ہو گئی ہے اور پیسے کی کمی ہے لیکن یہ پھر بھی ہیجان انگیز ہے کیونکہ یہ ابھی بھی شہریوں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

سینٹ کام کے کمانڈر جنرل مائیکل "ایرک" کوریلا نے ایک بیان میں کہا کہ "داعش ابھی بھی اس خطے اور اس سے آگے کے لیے ایک خطرہ کی نمائندگی کر رہی ہے۔"

کوریلا نے کہا کہ "اگرچہ یہ گروہ تنزلی کا شکار ہے لیکن اس کے باجود وہ ابھی بھی خطے کے اندر کارروائیاں کرنے کے قابل ہے اور مشرق وسطیٰ سے باہر حملہ کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔"

داعش نے حالیہ برسوں میں یورپ میں کیے جانے والے کئی مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جن میں نومبر 2015 میں پیرس اور اس کے مضافات میں ہونے والا حملہ بھی شامل ہے جس میں 130 افراد ہلاک ہوئے تھے اور جولائی 2016 میں فرانس کے شہر نیس میں ایک دوسرا حملہ بھی شامل ہے جس میں 86 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اسی سال بیلجیئم میں ہونے والے تین خودکش حملوں میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اگست 2017 میں، بارسلونا اور اسپین کے دیگر مقامات پر ہونے والے داعش کے حملوں میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500