جرم و انصاف

ایران تیل کی پابندیوں سے بچ نکلا جبکہ بدعنوانی میں گھری معیشت ڈوبنے کو ہے

از المشارق

ستمبر میں سمرقند، ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سالانہ سربراہی اجلاس کے دوران ایران تنظیم کا مستقل رکن بن گیا۔ [ارنا]

ستمبر میں سمرقند، ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سالانہ سربراہی اجلاس کے دوران ایران تنظیم کا مستقل رکن بن گیا۔ [ارنا]

حال ہی میں امریکہ نے جنوبی اور مشرقی ایشیاء میں اصل صارفین کے لیے کروڑوں ڈالر مالیت کی ایرانی پیٹرو کیمیکلز اور پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں ملوث کمپنیوں کے ایک بین الاقوامی نیٹ ورک پر پابندی عائد کر دی ہے۔

یہ اقدام ان رپورٹس کے درمیان سامنے آیا ہے کہ ایران نے پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جون اور جولائی میں چین کو تیل کی برآمدات بڑھا دی ہیں، باوجود یہ کہ اسے روسی خام تیل کی بڑھتی ہوئی مسابقت کا سامنا ہے جس نے اسے اپنے نرخوں میں کمی کرنے پر مجبور کیا ہے۔

آٹھ اداروں پر پابندیاں، جن کا اعلان 29 ستمبر کو کیا گیا تھا، میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، ہانگ کانگ اور بھارت میں ایرانی بروکرز اور فرنٹ کمپنیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

امریکی وزارتِ خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ ان کمپنیوں نے "ایرانی پیٹرولیم اور پیٹروکیمیکل مصنوعات کی مالی منتقلی اور ترسیل میں سہولت کاری" کی ہے، اور ایرانی ترسیل کے ماخذ کو چھپانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

23 فروری 2016 کو لی گئی ایک تصویر میں خرگ جزیرے پر تیل کی ایک تنصیب پر برآمدی تیل کی پائپ لائنوں کو دکھایا گیا ہے۔ [ایس ٹی آر / اے ایف پی]

23 فروری 2016 کو لی گئی ایک تصویر میں خرگ جزیرے پر تیل کی ایک تنصیب پر برآمدی تیل کی پائپ لائنوں کو دکھایا گیا ہے۔ [ایس ٹی آر / اے ایف پی]

اس کا کہنا تھا کہ انہوں نے دو منظور شدہ ایرانی بروکرز، ٹریلیئنس پیٹروکیمیکل کمپنی لمیٹڈ (ٹریلیئنس) اور پرشیئن گلف پیٹروکیمیکل انڈسٹری کمرشل کمپنی (پی جی پی آئی سی سی) کو فنڈز کی منتقلی اور ایرانی پیٹرولیم اور پیٹروکیمیکل ایشیاء میں خریداروں کو بھیجنے کے قابل بنایا ہے۔

اُسی روز، امریکی محکمۂ خارجہ نے اعلان کیا کہ وہ چین میں قائم دو اداروں – ژونگو سٹوریج اینڈ ٹرانسپورٹیشن کمپنی لمیٹڈ اور ڈبلیو ایس شپنگ کمپنی لمیٹڈ -- کو ایران کی پیٹروکیمیکل تجارت میں ملوث ہونے پر بلیک لسٹ کر رہا ہے۔

یکم اگست کو، وزارتِ خزانہ نے پی جی پی آئی سی سی کی معاونت کرنے والی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کر دیا۔

6 جولائی کو، اس نے ایرانی پیٹروکیمیکل اور پیٹرولیم کی فروخت میں سہولت کاری کرنے والے خلیجی نیٹ ورک پر پابندی عائد کی۔

اور 16 جون کو، اس نے مشرقی ایشیاء میں ایرانی پیٹروکیمیکل کی فروخت کی معاونت کرنے والے بین الاقوامی پابندیوں سے بچنے والے نیٹ ورک کو ہدف بنایا۔

یہاں تک کہ جب یہ جہاز رانی کے دھوکہ دہی پر مبنی طریقوں میں مشغول ہے، اسلامی جمہوریہ نے آبنائے ہرمز میں تیل کے جہازوں کو بحری قزاقی کی کارروائیوں سے دھمکانا جاری رکھا ہوا ہے۔

یوکرین پر روس کے حملے سے پیدا ہونے والے توانائی کے موجودہ عالمی بحران کے ساتھ، آبنائے ہرمز -- ایک مصروف ترین مقام جہاں سے دنیا کی تیل کی پیداوار کا پانچواں حصہ گزرتا ہے -- اور بھی نازک ہو گیا ہے۔

ایران کی ایس سی او کی رکنیت

ایران نے اپنی دیوالیہ پن کے کنارے کھڑی معیشت کو متحرک کرنے اور بین الاقوامی پابندیوں کے خلاف مزاحمت کے بہانے مشرقی ممالک خصوصاً چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا ہے۔

مشرق کے ساتھ گہرے تعلقات کی تلاش میں، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی تاشقند میں حکام سے ملاقات کرنے اور سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے 14 ستمبر کو ازبکستان کی طرف عازمِ سفر ہوئے تھے۔

ایس سی او کی بنیاد سنہ 2001 میں چین، روس، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان اور کرغزستان کے قائدین نے رکھی تھی۔ ہندوستان اور پاکستان نے سنہ 2016 میں شمولیت اختیار کی تھی۔

تہران سمرقند میں سربراہی اجلاس کے دوران ایس سی او کا مستقل رکن بن گیا، جس کا اعلان ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے 17 ستمبر کو کیا تھا۔

تاہم، بعض تجزیہ کاروں بشمول بین الاقوامی پالیسی کے تجزیہ کار خسرو جعفری کے مطابق، شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت اس کی معیشت کو آگے نہیں بڑھائے گی، جیسا کہ ایرانی حکومت کا پروپیگنڈہ دعویٰ کرتا ہے۔

جعفری نے المشارق کو بتایا کہ ایس سی او کی رکنیت ماسکو اور بیجنگ کو ایران کے وسائل تک کھلی اور یکطرفہ رسائی دے گی۔

سنہ 2003 سے ستمبر کے درمیان، جب اس نے ایس سی او میں شمولیت اختیار کی، ایران اس تنظیم میں ایک "مبصر ریاست" تھا، جس نے سنہ 2015 میں مستقل رکنیت کی اس کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس نے ایران کو تنظیم میں شامل ہونے سے روکا تھا۔

اب، ان کا کہنا ہے، رئیسی کی حکومت تیزی سے روس کی طرف متوجہ ہو رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ماسکو نے ایران کی مستقل رکنیت کی اپنی سابقہ مخالفت کو ترک کر دیا ہے۔

ایرانی حکومت میں بدعنوانی

دریں اثناء، ایران کی سب سے بڑی فولاد ساز کمپنی مبارکہ سٹیل کمپنی 3 بلین ڈالر تک پہنچنے والی بدعنوانی کی سکیم کے لیے مجلس (ایرانی پارلیمنٹ) کے زیرِ تفتیش ہے اور اس کی بڑی وجہ سابق صدر حسن روحانی کی انتظامیہ سے منسوب ہے۔

یہ معاملہ تعصب پسندوں، جنہوں نے رئیسی کے صدر بننے کے بعد سے اقتدار سنبھالا ہے، اور اصلاح پسندوں، جن کے صدر روحانی تھے، کے درمیان ایک وجۂ تنازعہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔

مبارکہ سٹیل کمپنی کے اہلکاروں پر اقربا پروری، بدعنوانی، رشوت ستانی اور سپاہِ پاسدارانِ ایرانی انقلاب (آئی آر جی سی) نیز نمازِ جمعہ کے اماموں کے دفاتر کو غیر قانونی ادائیگیوں سمیت وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کا الزام ہے۔

حال ہی میں سامنے آنے والے ایک اور معاملے میں، مہر پیٹروکیمیکلز، ایک ایرانی کمپنی جسے فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو واپس بھیجنے کا کام سونپا گیا ہے، کے منتظمین پر 170 ملین ڈالر کے غبن کا الزام عائد ہوا ہے۔

مہر پیٹروکیمیکل مصنوعات برآمد کرتی ہے اور ترجیحی نرخوں پر سرکاری ڈالر وصول کرتی ہے۔ لیکن مبینہ طور پر وہ ایران کو 170 ملین ڈالر واپس کرنے میں ناکام رہی ہے۔ رقم کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا۔

مبینہ طور پر زیادہ تر غبن اس وقت ہوا جب رئیسی ایران کی عدلیہ کے سربراہ تھے۔

اسلامی جمہوریہ اپنی بدعنوانی، غبن اور منی لانڈرنگ کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، زیادہ تر آئی آر جی سی کے ذریعے، جس کا ایران کی معیشت میں بڑا حصہ ہے اور اسے ایرانی قائد علی خامنہ ای کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

دریں اثناء، ایرانی عوام حکومت کی بدانتظامی اور غلط ترجیحات کے نتائج بھگت رہے ہیں اور بڑی اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں، جن میں بے روزگاری اور آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی شامل ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

جو بائیذڈن: پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے اس ملک "کے پاس کسی اتحاد کے بغیر جوہری ہتھیار ہیں۔" لیکن پاکستان نے کہا کہ امریکی صدر جو پاکستان سے متعلق شبہات رکھتے ہیں، غلط ہیں۔ https://www.voadeewanews.com/a/6791098.html

جواب