سلامتی

چھاپے میں چوٹی کے داعش رہنما کی ہلاکت کے بعد امریکہ کی دہشتگردوں کو تنبیہ: ہم تمہیں ڈھونڈ نکالیں گے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

3 فروری کو شام کے شمال مغربی صوبہ ادلیب میں اتمے میں امریکی سپیشل آپریشنز فورسز کے راتوں رات چھاپے کے بعد ایک عسکری آلہ زمین پر پڑا ہے، اس چھاپے کے دوران داعش رہنما نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ [محمد حاج کادور/اے ایف پی]

3 فروری کو شام کے شمال مغربی صوبہ ادلیب میں اتمے میں امریکی سپیشل آپریشنز فورسز کے راتوں رات چھاپے کے بعد ایک عسکری آلہ زمین پر پڑا ہے، اس چھاپے کے دوران داعش رہنما نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ [محمد حاج کادور/اے ایف پی]

واشنگٹن، ڈی سی – امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات (3 فروری) کو کہا کہ شام کے صوبہ ادلیب میں امریکی سپیشل فورسز کے ایک چھاپے کے دوران "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے ایک چوٹی کے رہنما نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

بائیڈن نے ایک بیان میں کہا، "گزشتہ رات امریکی عسکری افواج نے امریکی عوام اور ہمارے اتحادیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور دنیا کو ایک محفوظ تر مقام بنانے کے لیے میری ہدایات پر شمال مغربی شام میں انسدادِ دہشتگردی کا ایک کامیاب آپریشن کیا۔"

انہوں نے کہا، "اپنی مسلح افواج کی مہارت اور دلیری کے مرہونِ منت ہم نے داعش کے رہنما ابوابراہیم الہاشمی القریشی کو میدانِ جنگ سے باہر کر دیا۔"

جمعرات کو قبل ازاں عوامی اظہارِ رائے کے دوران، بائیڈن نے کہا کہ امریکی افواج نے شہریوں کو بچانے کے لیے "ہر احتیاط" اپناتے ہوئے فضائی حملے کے بجائے سپیشل فورسز کے ذریعے آپریشن کرنے کا انتخاب کیا۔

3 فروری کو شمال مغربی شام میں ایک چھاپے کے دوران چوٹی کا داعش رہنما ابو ابراہیم الہاشمی القریشی مارا گیا۔ اس آپریشن میں امریکی شپیشل فورسز اور شامی جمہوری افواج نے حصہ لیا۔ [فائل]

3 فروری کو شمال مغربی شام میں ایک چھاپے کے دوران چوٹی کا داعش رہنما ابو ابراہیم الہاشمی القریشی مارا گیا۔ اس آپریشن میں امریکی شپیشل فورسز اور شامی جمہوری افواج نے حصہ لیا۔ [فائل]

انہوں نے کہا کہ لیکن "مایوس کن بزدلی کے حتمی اقدام میں"، داعش رہنما نے "خود کو دھماکے سے اڑا لینے کا انتخاب کیا"، عمارت کی تیسری منزل کو اڑانے کے اس عمل میں اس نے اپنے ہی خاندان کی عورتوں اور بچوں سمیت اپنے ساتھ دیگر کو بھی ہلاک کیا۔

اس چھاپے میں ایلیٹ امریکی افواج نے اتمے کے قریب خطرناک ہیلی کاپٹر لینڈنگ کی۔

شامی رسدگاہ برائے انسادنی حقوق کے مطابق، امریکی ہیلی کاپٹر کرد انتظام کے تحت شہر کوبانی میں ایک عسکری چھاؤنی سے اڑا، جبکہ امریکہ کے تربیت یافتہ شامی جمہوری افواج (ایس ڈی ایف) کے ایلیٹ ارکان نے اس آپریشن میں شمولیت اختیار کی۔

بائیڈن نے چھاپے میں حصہ لینے والی ایس ڈی ایف کے ساتھ "ناگزیر شراکت" کا حوالہ دیا اور کہا کہ امریکہ "داعش پر دباؤ رکھنے" کے لیے اپنے اتحادیوں اور شراکت دارون کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔

بائیڈن نے کہا کہ یہ کامیاب چھاپہ "دنیا بھر میں دہشتگردوں کو ایک سخت پیغام دیتا ہے۔": "ہم تمھارے پیچھے آئیں گے اور تمہیں ڈھونڈ نکالیں گے۔"

داعش رہنما کا خوب معروف پیشرو، ابوبکر البغدادی 2019 میں ادلیب ہی میں اسی قسم کے چھاپے میں مارا گیا تھا کرد افواج نے اس چھاپے میں بھی حصہ لیا تھا۔

بربریت کے لیے شہرت

بائیڈن نے کہا کہ شمال مغربی شامل میں جیل پر حالیہ حملوں کے پیچھے القریشی تھا۔

یہ داعش رہنما جو امیر محمد سید عبدالرحمٰن المولیٰ کے نام سے بھی معروف تھا، ایک پیچیدہ کردار تھا جو کہ اس دہشتگرد گروہ کے چوٹی کے کردار پر تعینات ہونے سے قبل نہایت کم شہرت کا حامل تھا۔

وہ ممکنہ طور پر 1976 میں موصل سے کوئی 70 کلومیٹر دور تل افر میں ایک ترکمان النسل خاندان کے یہاں پیدا ہوا جس سے وہ داعش کے عہدوں پر اوپر آنے والا ایک کمیاب عجمی بن گیا۔

انسدادِ دہشتگردی کے منصوبے (سی ای پی) کے مطابق، القریشی نے 2003 میں القاعدہ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے ایک مذہبی نائب اور شریعت قاضی کا کردار لیا۔

وہ 2004 میں البغدادی سے ملا، جبکہ دونوں جنوبی عراق میں کیمپ بوکا جیل میں زیرِ حراست تھے، اور بعد الزکر اپنی ہی جانب رہا جیسا کہ البغدادی نے 2010 میں القاعدہ کی عراقی شاخ کی باگ ڈور سنبھالی۔

بعدازاں البغدادی نے فرار ہو کر ایک گروہ بنایا جسے اب داعش کے نام سے جانا جاتا ہے۔

2014 میں، سی ای پی کے مطابق، القریشی نے "القاعدہ چھوڑنے سے قبل" البغدادی کو موصل میں خوش آمدید کہا "اور اس بنیاد برست کے مشن میں مکمل اتحاد اور حمایت کا عہد کرتے ہوئے، داعش کو تیزی سے شہر پر قبضہ کرنے میں معاونت فراہم کی۔"

سی ای پی کے مطابق، اس نے داعش کے اعلیٰ عہدوں میں "تیزی سے خود کو مستحکم کیا"، اور ’پروفیسر‘ اور ’تباہ کن‘ کے عرف سے موسوم تھا۔

اس نے کہا کہ وہ داعش میں ایک "وحشیانہ حکمتِ عملی بنانے والے" کے طور پر جانا جاتا تھا اور "البغدادی کی قیادت کی مخالفت کرنے والوں کا خاتمہ کرنے" کا ذمہ دار تھا۔

القریشی کی ممکنہ وجہِ شہرت قتلِ عام، جبراً نکالے جانے اور جنسی غلامی کے ذریعے عراق کی یزیدی اقلیت کو ہدف بنانے کی توجیح کرنا تھی ۔

امریکی حکومت نے القریشی تک پہنچانے والی معلومات دینے پر 10 ملین ڈالر انعام کی پیشکش کر رکھی تھی، جو کہ دنیا کے مطلوب ترین انسانوں میں سے ایک تھا۔

بے گھر لوگوں میں چھپا ہوا

اتمے کی جس عمارت میں القریشی مقیم تھا، کے مالک نے اسے ایک معمولی زندگی گزارنے والے کرایہ دار کے طور پر بیان کیا۔

مالک جائیداد، جس نے اپنا نام صرف ابو محمد بتایا، نے کہا، "یہ شخص یہاں 11 ماہ رہا۔ میں نے کچھ مشکوک نہ دیکھا نہ ہی کچھ محسوس کیا۔"

اس نے کہا، "وہ آتا اور کرایہ دے کر چلا جاتا۔ وہ اپنے تین بچوں اور بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی بیوہ بہن اور اس کی بیٹی ان کے اوپر کی منزل میں رہتے تھے۔"

ایک شاہد نے کہا کہ وہ ہیلی کاپٹر کی آواز سے جاگ کیا۔

اتمے میں رہنے والے ایک بے گھر ہونے والے شامی ابو علی نے کہا، "پھر ہم نے چھوٹے دھماکے سنے۔ پھر ہم نے تیز تر دھماکے سنے۔" اس نے مزید کہا کہ امریکی افواج نے رہایشیوں کو "پریشان نہ ہونے" کا کہا۔

اس شخص نے امریکی فورسز کے لاؤڈ سپیکر پیغامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ کہہ رہے تھے، "ہم۔۔۔ آپ کو دہشتگردوں سے نجات دلانے کے لیے صرف اس گھر کو آ رہے ہیں۔"

اے ایف پی نے خبر دی کہ کوئلہ کی اینٹوں سے بنی دو منزلہ عمارت پر ایک شدید معرکہ کے زخموں کے نشانات تھے، کس کی کھڑکیوں کی چوکاٹھیں ٹوٹی ہوئی، چھتیں جلی ہوئیں اور جزوی طور پر گری ہوئی تھیں۔

یہ عمارت ایک ایسے علاقہ میں ہے جو بڑے پیمانے پر کسی دور میں شام میں القاعدہ کی فرینچائز کے سابق ارکان کی قیادت میں ایک شدت پسندانہ اتحاد تحریر الشام کے زیرِ انتظام ہے۔

اتمے بے گھر ہونے والے خاندانوں کا ایک بڑا کیمپ ہے، جس کے بارے میں ماہرین نے تنبیہ کی ہے کہ وہ شدت پسندوں کی جانب سے شہریوں کے درمیان چھپنے کی ایک جگہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔

داعش مخالف جنگ میں امریکہ کا عزم

امریکہ داعش کو شکست دینے اور اس پہلو سے دنیا بھر میں اتحادی ممالک کے ساتھ مستحکم شراکت داری برقرار رکھنے کے اپنے عزم کی ازسرِ نو یقین دہانی جاری رکھتا ہے۔

امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کی جانب سے گزشتہ برس عراق میں جنگی کردار کے خاتمہ کے بعد داعش مخالف جنگ منتقل ہو گئی ہے۔

2,500 امریکیوں سمیت اس کے 3,500 فوجیوں نے خود کو اپنے عراقی ہم منصبوں کی مشاورت اور تربیت اور بالواسطہ حمایت فراہم کرنے تک محدود کر لیا ہے۔

کمبائنڈ جائنٹ ٹاسک فورس – آپریشن انہیرنٹ ریزالو (سی جے ٹی ایف – او آئی آر) کے کمانڈر میجر جنرل جان ڈبلیو برینان نے دسمبر میں کہا، "اس نئے مرحلہ میں عراق کے ساتھ ہماری انقلاب پزیر شراکت داری مسلسل چوکسی کی ضرورت کی عکاس ہے۔ داعش گر چکی ہے، لیکن ختم نہیں ہوئی۔ ہم اپنی شریک افواج کو عراق کی عوام کے تحفظ کی صلاحیت فراہم کرنے کے لیے مشاورت اور معاونت دیں گے۔"

حال ہی میں غوائران جیل پر داعش حملے کے بعد شام میں بین الاقوامی اتحاد نے بھی داعش مخالف جنگ میں اپنے عزم کو دہرایا ہے۔

سی جے ٹی ایف – او آئی آر نے 27 جنوری کو ٹویٹ کیا، "اتحاد ہمارے ایس ڈی ایف شراکت داروں کی بہادری اور عزم کی وجہ سے ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم اپنے شراکت داروں کو مشاورت دینے، معاونت کرنے اور صلاحیت دینے کے لیے پرعزم ہیں، کیوں کہ داعش کو دوبارہ پیدا ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500