سلامتی

ہزاروں افغان شہری طالبان کی پھانسیوں اور لوٹ مار سے بھاگ رہے ہیں

خالد زرائی اور اے ایف پی

طالبان نے جولائی کے آخیر میں صوبہ کنڑ کے نارائی اور غازی آباد اضلاع پر قبضہ کرنے کے بعد، ہزاروں افراد کو اپنے گھروں سے بھاگ جانے پر مجبور کیا ہے۔ کچھ رہائشی صوبائی دارالحکومت اسد آباد کے لیے روانہ ہوئے جبکہ دیگر صوبہ ننگرہار بھاگ گئے۔ [خالد زرعی/سلام ٹائمز]

کنٹر -- افغانستان بھر میں طالبان کے عسکریت پسندوں کی طرف سے کیے جانے والے ہولناک کاموں کی خبریں سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں جبکہ وہ مزید علاقوں پر قبضہ کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے ہجرت (آئی او ایم) نے منگل (10 اگست) کو کہا ہے کہ بڑھتے ہوئے تشدد، خصوصی طور پر افغانستان کے شہروں میں، نے صرف اس سال ہی 359,000 افغان شہریوں کو بے گھر کر دیا ہے۔

جولائی کے آخیر میں، طالبان کی طرف سے کنڑ صوبہ کے اضلاع، نارائی اور غازی آباد پر قبضہ کرنے کے بعد، ہزاروں خاندانوں کو حفاظت کے لیے، اپنے گھر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔

شہریوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ ان اضلاع پر قبضہ کرتے ہوئے، طالبان نے پینے کے پانی تک شہریوں کی رسائی کو منقطع کر دیا، اسد آباد -نارائی تک سڑک کو پتھر پھینک کر بند کر دیا اور شہریوں کے گھروں کو بنکروں کے طور پر استعمال کرنے کے لیے ان پر قبضہ کر لیا۔

اندرونِ ملک بے گھر ہو جانے والے والے افغان خاندان، جو طالبان کے تشدد کی وجہ سے صوبہ قندوز اور تخار سے بھاگے ہیں، 9 اگست کو کابل میں کھانا اکٹھا کر رہے ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

اندرونِ ملک بے گھر ہو جانے والے والے افغان خاندان، جو طالبان کے تشدد کی وجہ سے صوبہ قندوز اور تخار سے بھاگے ہیں، 9 اگست کو کابل میں کھانا اکٹھا کر رہے ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

اندرونِ ملک بے گھر ہو جانے والے خاندان، اپنے گھروں سے بھاگنے کے بعد، 7 اگست کو ایک اسکول میں بیٹھے ہیں جب کہ افغان نیشنل ڈیفنس اور سیکورٹی فورسز اور طالبان باغیوں کے مابین ضلع غازی آباد میں لڑائی جاری ہے۔ [نوراللہ شیرزادہ/اے ایف پی]

اندرونِ ملک بے گھر ہو جانے والے خاندان، اپنے گھروں سے بھاگنے کے بعد، 7 اگست کو ایک اسکول میں بیٹھے ہیں جب کہ افغان نیشنل ڈیفنس اور سیکورٹی فورسز اور طالبان باغیوں کے مابین ضلع غازی آباد میں لڑائی جاری ہے۔ [نوراللہ شیرزادہ/اے ایف پی]

کچھ شہری صوبائی دارالحکومت اسدآباد روانہ ہوئے جبکہ کچھ بھاگ کر ننگرہار صوبہ چلے گئے۔

نارائی ضلع کے گاوں مرکزی کے 50 سالہ شہری محمد اکبر خان، اس لڑائی سے بچنے کے لیے اپنے خاندان کے چھہ ارکان کے ساتھ بھاگ کر نارنگ ضلع چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ "جب طالبان آئے تو دہشت اور قتل و غارت بھی ان کے ساتھ آیا۔ ہم سب خوفزدہ تھے اور ہمارا خیال تھا کہ وہ اگر آج نہیں تو کل -- ہمیں قتل کر دیں گے -- کیونکہ ہم حکومت کے حامی تھے اور ہمارے بہت سے لوگ حکومت کے لیے کام کر تے ہیں، جن میں، میں بھی شامل ہوں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم شام کو نکلے اور ایک رات اسمار میں گزاری اور پھر محفوظ جگہ تک پہنچنے کے لیے دوبارہ حرکت شروع کر دی"۔

خان نے کہا کہ "حکومت نے ہماری مدد شروع کر دی ہے اور وہ ہمیں خوراک، پانی اور باورچی خانے کا سامان دے رہی ہے"۔

بیوہ اور تین بچوں کی ماں، نیاز بی بی، غازی آباد میں اپنے گھر کو چھوڑ کر پناہ لینے کے لیے نارنگ ڈسٹرکٹ کے علاقے کوٹکے بھاگ گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ "وہاں پر لڑائی میں شدت آ گئی ہے اور ہمیں احساس ہو گیا کہ طالبان ہمیں امن سے نہیں رہنے دیں گے اس لیے ہم بھاگ آئے اور اب لوگ اور حکومت ہماری مدد کر رہے ہیں"۔

طالبان کی سفاکی کی داستانیں

جو لوگ اگلی صفوں سے بھاگ کر آئے ہیں، وہ سخت گیر اسلام پسند گروہ کی بھیانک کہانیاں لے کر آئے ہیں، جس میں سابقہ سرکاری ملازمین کے خلاف انتقامی کارروائیوں، پھانسیوں کے خلاصے، سر قلم کرنے اور جبری شادیوں کے لیے لڑکیوں کے اغوا کی تفصیلات شامل ہیں۔

36 سالہ بیوہ خاتون فریبہ جو اتوار کو اپنے چھہ بچوں کے ساتھ قندوز سے اس وقت فرار ہوئی جب طالبان نے قبضہ کر لیا، کہا کہ "ہم نے جیل کے قریب لاشیں پڑی دیکھیں -- ان کے قریب کتے تھے"۔

اے ایف پی سے بات کرنے والے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، اس نے انتقام کے خوف سے اپنی مکمل شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

قندوز سے فرار ہونے والے ایک اور شخص عبدل منان نے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان نے اس کے بیٹے کا سر قلم کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "وہ اسے لے گئے -- جیسے کہ وہ کوئی بھیڑ بکری ہو اور اس کا سر چاقو سے کاٹ کر پھینک دیا"۔

افغان فورسز اور طالبان کے درمیان ہونے والی لڑائی کے باعث، قندوز کے بازاروں میں دکانیں جل کر سیاہ ہو گئی ہیں۔

قندوز کے ایک شہری حسیب جو کہ ایرپورٹ کے قریب رہتے ہیں، نے کہا کہ "علاقے میں طالبان لوگوں کے گھروں میں چھپے ہوئے ہیں اور حکومتی فورسز ان پر بمباری کر رہی ہیں"۔

طالبان کے زیرِ کنٹرول دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے اس سے مماثل ہولناکیوں کی خبر دی ہے۔

رحیمہ شبرغان سے فرار ہونے کے بعد، ان ہزاروں خاندانوں میں شامل ہیں جو کابل کے ایک باغ میں کیمپ لگائے ہوئے ہیں، نے کہا کہ "طالبان مارپیٹ اور لوٹ مار کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "وہ نوجوان لڑکیوں یا جوان بیوہ عورتوں کو زبردستی ان کے خاندانوں سے لے جاتے ہیں۔ ہم اپنی عزت بچانے کے لیے فرار ہوئے ہیں"۔

'کوئی بھی محفوظ محسوس نہیں کر رہا'

کنڑ کے مہاجرین اور وطن واپسی کے شعبہ کے ڈائریکٹر عبدل راشد صفی نے کہا کہ 5 اگست تک، نارائی اور غازی آباد کے اضلاع سے تقریبا 9,000 خاندان بے گھر ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے کنڑ میں 3,000 خاندانوں کو خوراک اور استعمال کی دوسری ضروری اشیاء فراہم کی ہیں اور امدادی کوششیں جاری ہیں"۔

صفی نے کہا کہ "مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی مدد کے ساتھ، ہم ان خاندانوں کو، جن کے پاس پناہ گاہیں نہیں ہیں خیمے، گدے، باروچی خانے کی کٹیں اور تین مہینے کی خوراک فراہم کر رہے ہیں"۔

کنڑ کے گورنر محمد اقبال سید نے کہا کہ نارائی اور غازی آباد اضلاع سے تعلق رکھنے والے بے گھر خاندانوں کو دوبارہ سے آباد کر دیا گیا ہے اور حکومت ان دو اضلاع کو واپس لینے کے لیے فوری اقدامات کرے گی تاکہ یہ شہری اپنے گھروں کو واپس جا سکیں اور اسکول اور سرکاری ادارے اپنا کام دوبارہ سے شروع کر سکیں۔

محمد رؤف خاکسار کنڑ صوبہ کی اسمار ڈسڑکٹ سے بھاگے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے نارائی ضلع میں اپنا گھر چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ گئے تو گھر کو لوٹ لیا جائے گا۔ میرے والدین وہاں رہ رہے ہیں تاکہ کوئی گھر کو لوٹ نہ لے"۔

خاکسار نے کہا کہ "طالبان کے آنے سے زندگی تباہ ہو گئی ہے اور کوئی بھی محفوظ محسوس نہیں کرتا"۔

"ہم چاہتے ہیں کہ حکومت جلد کنٹرول سنبھال لے تاکہ ہم اپنے گھروں کو واپس جا سکیں"۔

خوابوں میں خلل

نارائی ضلع کی شہری، 11 سالہ سعدیہ اپنی والدہ، دو بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ، بھاگ کر، کنڑ صوبہ کے صوبائی دارالحکومت اسد آباد آئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "میں نارائی کے لڑکیوں کے اسکول کی طالبہ تھی۔ اسکول کا سال ختم ہونے میں چند دن ہی رہ گئے تھے۔ میں سالانہ امتحان دینے اور پانچویں کلاس میں جانے کے لیے خوش تھی"۔

انہوں نے کہا کہ "مگر لڑائی شروع ہو گئی اور ہم پیدل ہی بھاگے کیونکہ کوئی گاڑی موجود نہیں تھی"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "میں چاہتی ہوں کہ میرے گاؤں اور اسکول میں امن آ جائے"۔

چھٹی جماعت کی طالبِ علم اور غازی آباد ڈسٹرکٹ کے علاقے جلالہ سے تعلق رکھنے والی گل عالم نے کہا کہ طالبان نے ان کے اسکول کو اپنی بیس بنا لیا ہے۔

انہیں ڈر ہے کہ ان کا اسکول تباہ کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ "میں ان پڑھ نہیں رہنا چاہتا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500