تجزیہ

پاکستانی ملیشیا مشرقی شام میں'لٹل ایران' کالونی کی توسیع میں شامل

ولید ابو الخیر

دیر الزور کے مذہبی مرکز کے باہر، فاطمیون ڈویژن کا ایک رکن، آئی آر جی سی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب کے دوران، کھڑا ہے۔ [فاطمیون /ٹیلیگرام]

دیر الزور کے مذہبی مرکز کے باہر، فاطمیون ڈویژن کا ایک رکن، آئی آر جی سی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب کے دوران، کھڑا ہے۔ [فاطمیون /ٹیلیگرام]

سپاہِ پاسدرانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) مشرقی شام میں اپنی موجودگی کو بھرپور طریقے سے بڑھا رہی ہے جس سے ایک ایسا خطہ پیدا ہو گیا ہے جسے کچھ لوگ "لٹل ایران" کہہ رہے ہیں اور جہاں وہ املاک پر قبضہ اور مقامی نوجوانوں کو اپنی ملیشیاؤں میں بھرتی کر رہے ہیں۔

اس علاقے میں، جو کہ عراقی سرحد سے بادیات تدمور (پامیرا صحرا) تک اور حمص اور حما صوبوں کے کناروں تک پھیلا ہوا ہے، کئی نئی ملیشیائیں ابھری ہیں جو مختلف قومیتوں کے ہزاروں جنگجوؤں کو علاقے میں لے آئی ہیں۔

آئی آر جی سی اور اس کی ساتھی ملیشیاؤں نے دریائے فرات کے ساتھ ساتھ اپنی موجودگی قائم کر لی ہے جو البو کمال کے سرحدی قصبے سے المیدین اور دیر الزور شہر سے لے کر حلب صوبہ اور اس کے ساتھ ہی صحرا کے پار ہومز تک پھیل گئی ہے۔

وہ اپنی ساتھی ملیشیاؤں کو، جو کہ غیر ملکی جنگجوؤں پر مبنی ہیں، لے آئی ہے، مقامی نوجوانوں کو شام سے وابستہ نئی تنظیموں میں بھرتی کیا ہے اور نجی املاک پر قبضہ کیا ہے تاکہ وہ نئے آنے والوں کو ٹھکانہ مہیا کر سکے جس سے آبادیاتی تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔

شام کے سرکاری ٹیلیویژن پر 9 فروری کو نشر کی جانے والی ایک ویڈیو سے لی گئی تصویر، جس میں الحاج قاسم سلیمانی کے ارکان حلب سے دیر الزور جانے کے لیے پہنچ رہے ہیں۔

شام کے سرکاری ٹیلیویژن پر 9 فروری کو نشر کی جانے والی ایک ویڈیو سے لی گئی تصویر، جس میں الحاج قاسم سلیمانی کے ارکان حلب سے دیر الزور جانے کے لیے پہنچ رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے لئے شامی آبزرویٹری کے مطابق،اتوار (14 مارچ) کو المیادین کے تقریبا 50 گھروں کے مکینوں کو آئی آر جی سی سے متعلقہ گروپ کی طرف سے بے دخلی کے احکامات ملے جو کہ مبینہ طور پر شامی حکومت کی جانب سے کام کر رہا ہے۔

آبزرویٹری نے کہا کہ اس سے ایک دن پہلے، آئی آر جی سی کی حمایت یافتہ ملیشیاء کتائب ابو الفضل ال عباس نے المیادین شہر کے مضافات میں، ملیشیاء راہنما کے احکامات پر، ایک گیس اسٹیشن پر قبضہ کر لیا۔

آئی آر جی سی کی بھاری موجودگی

سیاسی محقق، ابو نبی باقر جو کہ آئی آر جی سی کے معاملات میں مہارت رکھتے ہیں، نے کہا کہ ایسی بہت سی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر، آئی آر جی سی، متعلقہ ملیشیاؤں کو مشرقی شام میں بڑے پیمانے پر تعینات کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی آر جی سی نے وسیع جفرافیائی علاقے پر پھیلنے کا انتخاب کر لیا ہے تاکہ وہ اپنے سے منسلک ملیشیاؤں، عملے اور ہتھیاروں کی عراق اور شام کے درمیان، مسلسل نقل و حرکت کو آسان بنا سکے اور تہران اور بیروت کے درمیان راستے کو محفوظ بنا سکے۔

باقر نے کہا کہ آئی آر جی سی کی علاقے میں موجودگی کے پیچھے ایک اور غرض، اس کے قدرتی وسائل کے ذخائر ہیں جس میں پیٹرول، فاسفورس اور دیگر معدنیات شامل ہیں۔

دیر الزور کے سرگرم کارکن ابو عابد کے مطابق، آئی آر جی سی سے متعلقہ ملییشاؤں میں سے اکثریت مشرقی شام میں موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے لبنان کی حزب اللہ سب سے زیادہ طاقت ور ہے جس کے بعد فاطمیون ڈویژن ہے جو کہ افغان جنگوؤں پر مشتمل ہے اور شام میں آئی آر جی سی کا ہراول دستہ بن گئی ہے۔

دوسرے گروہوں میں زینبیون برگیڈ جو کہ پاکستانیوں پر مبنی ملیشیاء ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کتائب حزب اللہ، عصائب اہل الحق اور بہت سی دوسری شامل ہیں۔

مقامی بھرتی

ال عابد نے کہا کہ آئی آر جی سی نے شمالی شام میں، مقامی شامی نوجوانوں پر مبنی بہت سی مقامی ملیشیاء بھی قائم کر لی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان میں برگیڈ 313، سیدہ رقیہ، لواء الباقر، ال حاشمیوں، کتائب الزاہرہ، کتائب ال عباس، قوت ال امام ال رادہ، فوج ال امام ال حجاہ، لواء ال امام زین ال عابدین، حشد ال فرات و الجزیرہ، لیواء سکور الصحرا اور 47ویں ریجمنٹ شامل ہیں۔

ال عابد نے کہا کہ آئی آر جی سی نے مشرقی شام کے ان حصوں کو ایک بڑے عسکری کیمپ اور ہر قسم کے اسلحہ اور میزائلوں کے گودام میں تبدیل کر دیا ہے۔

میڈیا کے بہت سے ذرائع کے مطابق، ہتھیاروں اور میزائلوں کی بڑی تعداد، سرحد کی عراقی طرف سے شام میں داخل ہوتی ہے اور انہیں ایسے گوداموں کے ذریعے تقسیم کیا جاتا ہے جن کا کنٹرول ایرانی حمایت یافتہ عراقی ملیشیاؤں اور زینبیون برگیڈ کے پاس ہے۔

شام کے صحافی محمد ال عبداللہ نے کہا کہ چند تخمینوں کے مطابق، مشرقی شام میں آئی آر جی سی سے تعلق رکھنے والے 25,000 سے زیادہ جنگجو موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئی آر جی سی، نئے رنگروٹوں کو ملیشیاء کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے رقم، ہتھیار اور ایسے قبائلی ارکان کو تحفظ فراہم کرتی ہے جنہیں دہشت گردی کی دھمکیوں یا شامی حکومت کی طرف سے لازمی فوجی سروس جیسے معاملات پر دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نئے رنگروٹوں میں کم عمر نوجوان بھی شامل ہوتے ہیں۔

ال عبداللہ نے کہا کہ آئی آر جی سی سے منسلک ملیشیاؤں میں قبائلی افراد کی بھرتی، ولایت ال فقہ کے نظریے، جس میں ایران کے راہنمائے اعلی کے ساتھ اتحاد کا مطالبہ کیا جاتا ہے، کی بڑی پیمانے پر تشہیر کے ساتھ ساتھ ہو رہی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500