صحت

پاکستان میں کووڈ-19کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد چین کے بھیجے گئے ناقص وینٹیلیٹرز کا شاخسانہ ہے

تحریر: اشفاق یوسف زئی

12 جولائی کو پشاور میں خیبر ٹیچنگ اسپتال میں ڈاکٹرز وینٹیلیٹرز پر موجود مریض کو دیکھ رہے ہیں۔ [اشفاق یوسف زئی]

12 جولائی کو پشاور میں خیبر ٹیچنگ اسپتال میں ڈاکٹرز وینٹیلیٹرز پر موجود مریض کو دیکھ رہے ہیں۔ [اشفاق یوسف زئی]

پشاور – ڈاکٹرز کے مطابق، چین میں بنائے گئے غیر معیاری وینٹیلیٹرز پاکستان می کووڈ-19کے باعث بڑھتی ہوئی اموات کی بنیادی وجہ ہیں۔

ڈاکٹر رفیق احمد نے سیدو ٹیچنگ اسپتال، سوات میں کہا ‘‘ناقص وینٹیلیٹرز کووڈ-19کے ایسے بے شمار مریضوں کی اموات کا سب سے بڑا سبب ہیں جنہیں انتہائی نگہداشت کے یونٹس [ICUs] میں میکینکل وینٹیلیٹرز کی ضرورت تھی’’۔

انہوں نے مزید کہا، ‘‘وینٹیلیٹرز عمدہ معیار کے نہیں تھے، جس کے نتیجے میں مریض اپنی جان سے گئے۔’’

انہوں نے مزید اضافہ کیا، ‘‘اب تک، سوات میں 101 مریض کورونا وائرس سے جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں سے 80 وہ تھے جنہیں ڈاکٹرز نے چین سے درآمد شدہ وینٹیلیٹرز پر منتقل کیا تھا۔’’

لہذا چین نے غیر معیاری آلات فروخت کرکے موقع سے خوب فائدہ اٹھایا چونکہ کورونا وائرس سے شدید متاثرہ مریضوں کی معاونت کے لیے وینٹیلیٹرز انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، انہوں نے کہا۔

احمد صاحب کا کہنا تھا، ‘‘چین غیر معیاری کٹس، ذاتی حفاظتی سازوسامان [PPE] اور ٹیسٹنگ مشینیں فراہم کرکے کی عالمگیر وبا سے خوب رقم کما رہا ہے۔’’

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس (HMC)، پشاور می کووڈ 19 آئی سی یو کے ڈائریکٹر، پروفیسر نور وزیر نے 6 جولائی کو خیبر پختونخواہ (KP) کے محکمۂ صحت کو مراسلہ تحریر کیا کہ انہیں چین کے فراہم کردہ وینٹیلیٹرز کا معیار دیکھ کر انتہائی غصہ آیا۔

ان کا کہنا تھا، ‘‘میں مسلسل اُس کمپنی کو کال کر رہا ہوں جس سے ہم نے وینٹیلیٹرز خریدے تھے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے مینٹننس اور مرمت کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ یہ انتہائی غم و غصے کا مقام ہے کیونکہ ہم ٹیکس دہندگان کے خون پیسے کی کمائی ضائع کر رہے ہیں۔’’

دیگر ناقص آلات

HMC کے فزیشن جواد شاہ کے مطابق، اب تک اسپتال میں کورونا وائرس کے 750 مریض تھے، جن میں سے 300 کو وینٹیلیٹرز پر لے جایا گیا تھا اور ان میں سے صرف 40 زندہ بچ سکے۔

ان کا کہنا تھا، ‘‘اگر ہمارے پاس معیاری وینٹیلیٹرز ہوتے تو ہم کم از کم 90 فیصد مریضوں کو صحتیاب کرلیتے۔ ایک وینٹیلیٹر پر 30,000 امریکی ڈالرز [5 ملین روپے] سے زائد لاگت آتی ہے۔ یہ انتہائی شدید بیمار مریضوں کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ چینی آلات، سازوسامان، PPE اور کٹس نے COVID-19کے خلاف ہماری مدافعت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔’’

ناقابلِ قبول وینٹیلیٹرز کی جانب اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ، طبی عملے نے ناقص چینی درجۂ حرارت کی گنز، چہرے کے ماسک اور جوتوں کے حفاظتی کورز کی بھی وسیع پیمانے پر شکایات کی ہیںانہوں نے مزید کہا۔

انہوں نے وینٹیلیٹرز میں ناقص پارٹس کے بارے میں بتایا، جس سے مریضوں کے لیے آکسیجن کی مسلسل فراہمی برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔

وزارت برائے قومی صحت کی خدمات، ضوابط اور ربط، اسلام آباد کے ڈاکٹر شاہ زیب کا کہنا تھا، ‘‘اب تک پاکستان میں 4,980 مریض جاں بحق ہوچکے ہیں۔

جن میں سے 91 فیصد اسپتالوں میں داخل تھے جبکہ 9 فیصد کی اموات گھر پر ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپتالوں میں مرنے والے ستاون فیصد مریض وینٹیلیٹرز پر تھے۔

انہوں نے کہا، ‘‘ہم آئی سی یو کے مریضوں میں اموات کی بلند شرح کے باعث ناقص وینٹیلیٹرز کی اطلاع حکومت کو کر رہے ہیں۔ مرنے والوں میں تقریباً 75.3 فیصد مریض 52 سال یا اس سے زائد عمر کے تھے۔ انہیں بہتر وینٹیلیٹرز کی بدولت بچایا جاسکتا تھا۔’’

KP کا سب سے بڑا طبی مرکز، لیڈی ریڈنگ اسپتال، کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے 230 بستر اور 33 وینٹیلیٹرز کی سہولیات کا حامل ہے۔

اس مرکز کے آئی سی یو کے شعبے میں کام کرنے والے ڈاکٹر شوکت علی کہتے ہیں کہ اب تک کورونا وائرس کے انتہائی شدید بیمار مریضوں میں سے صرف نو مریض بچ پائے ہیں۔

اس اسپتال میں COVID-19 کے باعث 249 اموات ہوچکی ہیں۔

علی صاحب کہتے ہیں، ‘‘جب مریضوں کو میکینکل وینٹیلیشن کی ضرورت ہوتی ہے تو بعض اوقات وینٹیلیٹرز کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم ان مسائل کی شکایات حکومت کو مسلسل کرتے رہے ہیں، تاہم اب حکومت نے مقامی وینٹیلیٹرز کی فراہمی شروع کردی ہے جو کافی عمدہ ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ COVID-19 سے مرنے والوں کی تعداد میں کمی آئے گی۔’’

پاکستانی آلات کا استعمال

KP کے ڈپٹی ڈائریکٹرز برائے صحت، ڈاکٹر عمر جاوید نے کہا کہ پاکستانی وینٹیلیٹرز اب KP کے مختلف ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں موجود اسپتالوں تک پہنچ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ‘‘اب تک ہمارے پاس 400 وینٹیلیٹرز ہیں، جنہیں ہم نے ایسے 11 ٹیچنگ اسپتالوں میں نصب کردیا ہے جہاں COVID-19 کے مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے۔ اب ہم ہر ضلع میں COVID-19 کے مریضوں کو داخل کر پائیں گے۔’’

جاوید صاحب کا کہنا تھا کہ وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی اور پاکستانی فوج وینٹیلیٹرز کو درست طور پر چلانے کے حوالے سے عملے کو تربیت دے رہے ہیں۔ ایک طرف چینی وینٹیلیٹرز کے ساتھ سنگین مسائل جڑے ہوئے تھے، جبکہ پاکستانی وینٹیلیٹرز استعمال میں بھی آسان ہیں۔’’

وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد حسین چوہدری نے کہا کہ پاکستان وینٹیلیٹرز کی تیاری کو تیز کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ‘‘ہم نے 5 جولائی کو تکمیل شدہ ابتدائی مرحلے میں 12 وینٹیلیٹرز تخلیق کیے تھے، اور اب تخلیق کی یہ تعداد تقریباً 250 وینٹیلیٹرز فی ہفتہ تک جا پہنچی ہے۔’’

چوہدری صاحب نے کہا، ‘‘ہم اس وبائی مرض کو اپنے صحت کے نظام کو مستحکم کرنے کا ایک موقع سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں۔’’ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان آئندہ ہفتوں میں وینٹیلیٹرز برآمد کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 300 انجینئرز کا ایک گروپ ان آلات کی تیاری پر کام کر رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ صحتِ عامہ کے ماہرین کو ان کا استعمال بھی سکھا رہے ہیں۔’’

انہوں نے مزید کہا، ‘‘پاکستان پہلے ہی اپنی ضروریات کو پورا کرنے اور اس کے علاوہ برآمد کے لیے ماسکس، سینیٹائزرز اور دیگر آلات بنانے کا آغاز کرچکا ہے۔’’

چوہدری صاحب نے کہا کہ چینی وینٹیلیٹرز کے برعکس، جوکہ ناقابلِ منتقل ہوتے ہیں، امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) اور پاکستان انجینئرنگ کونسل سے منظورشدہ پاکستانی وینٹیلیٹرز قابلِ منتقلی ہیں اور انہیں ایمبولینسز یا مریضوں کے گھروں پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500