سلامتی

پولیس کے نفاذ کے بعد قبائلی علاقہ جات میں جرائم میں شدید کمی

از عدیل سعید

کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس ثناء اللہ عباسی جون میں پاک افغان سرحد پر طورخم چوکی کے دورے کے دوران حفاظتی انتظامات کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [کے پی پولیس]

کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس ثناء اللہ عباسی جون میں پاک افغان سرحد پر طورخم چوکی کے دورے کے دوران حفاظتی انتظامات کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [کے پی پولیس]

پشاور -- ایک رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ خطے میں پولیس کے قانون کے نفاذ کے بعد خیبر پختونخوا (کے پی) میں نئے ضم کردہ اضلاع (این ایم ڈیز) میں اس سال دہشت گردی کی سرگرمیوں اور دیگر جرائم جیسے کہ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگز میں بڑی تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔

پاکستان کا سابقہ نیم خودمختار قبائلی خطہ، جو کبھی عسکریت پسندوں اور بین الاقوامی سطح پر مطلوب دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ تصور کیا جاتا تھا، عام پولیس محکمے کے دائرۂ اختیار سے باہر ہوا کرتا تھا اور فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کہلانے والے نو آبادیاتی دور کے قانون کے تحت آتا تھا۔

اس خطے، جو مئی 2018 میں کے پی کے ساتھ اپنے انضمام سے قبل وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے طور پر معروف تھا، میں اب کے پی پولیس کے زیرِ نگرانی آنے کے بعد امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری نظر آئی ہے، جس نے فاٹا-کے پی انضمام کی مخالفت کرنے والوں تک کو بھی حیران کر دیا ہے۔

7 جون کو، کے پی پولیس نے موجودہ سال کے پہلے پانچ ماہ کے لیے این ایم ڈیز میں اپنی کارکردگی کی پہلی رپورٹ جاری کی ہے، جو محکمے کی خطے میں پولیسنگ کی کوششوں کو وسیع کرنے کی عکاسی کرتی ہے۔

کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس ثناء اللہ عباسی (سلیوٹ کرتے ہوئے) 15 فروری کو ضلع جنوبی وزیرستان کے دورے کے دوران حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے۔ [کے پی پولیس]

کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس ثناء اللہ عباسی (سلیوٹ کرتے ہوئے) 15 فروری کو ضلع جنوبی وزیرستان کے دورے کے دوران حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے۔ [کے پی پولیس]

رپورٹ کے مطابق، سابقہ فاٹا میں اس سال ابھی تک دہشت گردی کے واقعات میں پچھلے سال اتنے ہی عرصے کے مقابلے میں 50 فیصد کم ہو گئے ہیں، جبکہ دہشت گردی میں سرمایہ کاری کے واقعات میں 75 فیصد کمی ہوئی ہے۔ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کے واقعات میں بالترتیب 75 فیصد، 80 فیصد اور 100 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

دوسری جانب، ایک سال پہلے کے مقابلے میں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں بالترتیب 70 فیصد اور 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

نیز اس عرصے کے دوران، پولیس نے 134 مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا جبکہ 52 پولیس کے ہاتھوں مارے گئے۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ اس سال ابھی تک مشتبہ دہشت گردوں کے اٹھہتر مقدمات عدالتوں میں پہنچے ہیں، جن میں سے 10 کا نتیجہ سزائیں ملنے کی صورت میں نکلا۔

کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس ثناء اللہ عباسی نے کہا، "یہ ۔۔۔ ضم کردہ اضلاع میں جرم کی شرحوں میں شدید کمی خطے میں مؤثر اور بہترین پولیسنگ پر ہماری توجہکی وجہ سے ہے۔"

اعلیٰ عہدوں پر تعینات این ایم ڈی کے پولیس حکام کے ساتھ 7 جون کی ویڈیو کانفرنس کے دوران عباسی نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے قائدین کی پوری توجہ صوبے میں بہتر پولیسنگ پر مرتکز ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان علاقہ جات کے کے پی کے ساتھ انضمام اور امن و امان کی بہتر صورتحال کا خطے پر اور باقی ماندہ ملک پر دیرپا اثر پڑے گا۔

کے پی پولیس کے ترجمان، نوید گُل نے کہا، اگرچہ اس سال علاقے میں جرائم میں عمومی طور پر کمی واقع ہوئی ہے، پولیس نے پہلی مرتبہ وزیرستان کے علاقے میں عزت کے نام پر قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔

گل نے کہا کہ پولیس نے پانچوں ملزمان کو گرفتار کر لیا اور انہیں عدالت میں پیش کیا۔

مزید برآں، ان کا کہنا تھا کہ لیویز اور خاصہ دار، قبائلی پٹی میں فعال سابقہ نیم عسکری محکمہ جات کو پولیس کی صفوں میں شامل کر دیا گیا ہے اور جون کے وسط سے وہ آن لائن تربیت حاصل کرنا شروع کر دیں گے۔

غیر قانونی منشیات پر کریک ڈاؤن

کے پی پولیس کی ایک رپورٹ جس میں پانچ اضلاع میں قبضے میں لی گئی سینکڑوں کلوگرام غیر قانونی منشیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے گُل نے کہا، علاوہ ازیں، این ایم ڈیز میںپولیس نے منشیات فروشوں اور اسلحہ سمگلروں کے خلاف اپنی کارروائیوں کو بہتر بنایا ہے .

ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) شمالی وزیرستان شفیع اللہ گنڈاپور نے کہا، "سابقہ قبائلی علاقہ جات میں امن و امان قائم کرنا ایک مشکل کام ہے اور محکمۂ پولیس اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔"

شفیع اللہ نے کہا کہ خطے میں پولیس کی توسیع نئی ہے؛ لہٰذا، کچھ عام شہری قانون کی حکمرانی کے متعلق متذبذب ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، پھر بھی، وہ امن و امان میں پیش رفت سے خوش ہیں اور پولیس کو اپنے مکمل تعاون کی پیشکش کرتے ہیں۔

داخلی اور قبائلی امور کے پی کے سابقہ سیکریٹری، سید اختر علی شاہ نے کہا کہ این ایم ڈیز میں پولیس محکمے کے حوصلے بلند ہیں اور افسران خطے میں امن و امان کو بہتر بنانے سے مکمل طور پر مخلص ہیں۔

انہوں نے کہا، "اگر آپ خطے کے پس منظر کو ذہن میں رکھیں، تو پولیس محکمے کی کارکردگی توقعات سے بہتر ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

درہ آدم خیل میں کوئلے کے مائنز بند کرنے والے بدمعاش جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر موجود ہے اور اس میں لیویز اہلکاروں کی موجودگی میں اور درہ آدم خیل کے ہر طرف سیکورٹی فورسز کے ناکہ بندی سے یہ بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کی گزر اور اس میں مسلح افراد کیسے کنڈولی مائنز بند کرنے پہنچ گئے پولیس سے پہلے قبائلی علاقوں میں چوری ڈکیتی اور زنا کا نام ونشان نہیں تھا اگر پاکستان کے بندوبستی علاقوں سے موازنہ کیا جائے تو فاٹا امن کا گہوارہ تھا فاٹا سے کوئی بین الاقوامی دھشت گرد نہیں پکڑا گیا ہے چاہے اصل موزوں ہے پولیس کی بلند بانگ دعوے اس اخبار کو چاہیے کہ انضمام سے پہلے فاٹا کی امن کا ریکارڈ رکھیں اور مئی 2018 کے بعد امن کا ریکارڈ چیک کریں

جواب