دہشتگردی

کے پی پولیس نے دہشت گردی کے سرمایہ کار منیشات ڈیلروں کے خلاف مہم شروع کر دی

جاوید خان

ایک پولیس اہلکار ہیروئن بنانے والی مشینری کو دکھا رہا ہےجسے نومبر کے وسط میں پشاور میں مارے جانے والے ایک چھاپے کے دوران ایک چھوٹی فیکٹری سے پکڑا گیا تھا۔ پولیس نے صوبہ بھر میں منشیات کے ڈیلروں کے خلاف اقدامات کو تیز کر دیا ہے۔ [پشاور پولیس]

ایک پولیس اہلکار ہیروئن بنانے والی مشینری کو دکھا رہا ہےجسے نومبر کے وسط میں پشاور میں مارے جانے والے ایک چھاپے کے دوران ایک چھوٹی فیکٹری سے پکڑا گیا تھا۔ پولیس نے صوبہ بھر میں منشیات کے ڈیلروں کے خلاف اقدامات کو تیز کر دیا ہے۔ [پشاور پولیس]

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) میں پولیس نے اس امر کی دریافت کے بعد کہ صوبہ کے جنوبی اضلاع میں گینگز منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدن کو دہشت گرد گروں کو بھیج رہے ہیں، منشیات کے اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاون کی کوششوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

کے پی پولیس کے ترجمان کوکب فاروق نے کہا کہ "پولیس نے ستمبر کے وسط سے صوبہ بھر میں منشیات کے اسمگلروں کے خلاف ایک خصوصی مہم کا آغاز کیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ جب لکی مروت پولیس کو علاقے میں دہشت گردوں اور منشیات کے ڈیلروں کے درمیان تعلقات کا علم ہوا تو چھاپوں میں تیزی آ گئی"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ایک تفتیش کے دوران آشکار ہوا کہ منشیات کے کچھ ڈیلر، علاقے میں دہشت گردانہ حملے کرنے والے گروہوں کو سرمایہ فراہم کر رہے ہیں"۔

پولیس نے لکی مروت میں کئی چھاپوں کے دوران منشیات کے 75 ڈیلروں کو گرفتار کیا اور کئی ٹھکانوں کو مسمار کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ "آپریشن کے دوران، پولیس نے 7 کلوگرام ہیروئن اور آئس (کرسٹل میتھ) اور اس کے ساتھ ہی 95 کلوگرام حشیش پکڑی"۔ پولیس فورس نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران، منشیات کے 279 مبینہ ڈیلروں کے ٹھکانوں پر چھاپے مارے۔

'منشیات کی بڑے پیمانے پر فروخت'

کے پی پولیس کے انسدادِ منشیات کے شعبہ نے 20 نومبر کو ایک بیان میں کہا کہ فورس جو انٹیلیجنس کی خبروں پر کام کر رہی تھی، نے اباخیل، لکی مروت میں منشیات کے مبینہ مقامی ڈیلر اقبال خان کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا۔

ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ پولیس نے خان کو گرفتار کر کے 20 کلوگرام حشیش کا ایک تھیلہ قبضے میں لیا۔

ایجنسی نے کہا کہ خان "علاقے میں بڑے پیمانے پر منشیات کی فروخت میں ملوث تھا اور اس نے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) شاہ حسین خیل گروہ کو مالی امداد فراہم کی تھی"۔ ایک مبینہ دہشت گرد -- ممتاز علی - چھاپے کے وقت موجود تھا مگر فرار ہو گیا۔

ایجنسی کی طرف سے 18 نومبر کو دیے جانے والے ایک اور ہینڈ آوٹ میں منشیات کے مبینہ ڈیلروں محمد علی اور محمود عباس اور دہشت گرد گروہوں کے درمیان تعلق کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ دونوں نے غیر قانونی منشیات کی فروخت سے حاصل ہونے والے سرمایے سے دہشتگردوں کی مالی امداد کی۔ ملزمان پولیس کی حراست کی میں ہیں ۔

کے پی کے انسپکٹر جنرل آف پولیس محمد نعیم خان نے کہا کہ منشیات کے ڈیلروں کے خلاف صوبہ بھر میں مہم جاری ہے اور پولیس نے پہلے ہی کچھ بڑے ڈیلروں اور منشیات کا کاروبار کرنے والے گینگز کو گرفتار کر لیا ہے۔

خان نے کہا کہ "تمام علاقائی پولیس افسران اور ڈسٹرکٹ پولیس افسران کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ آئس، ہیروئن، حشیش اور کسی بھی قسم کی منشیات میں ملوث ملزمان کے خلاف بھرپور اقدامات کریں"۔

خان نے کہا کہ "نوجوانوں کو اس لعنت سے بچانے کے لیے منشیات کے ڈیلروں کے خلاف کریک ڈاون جاری رہے گا"۔

آئس پر کریک ڈاون

کے پی پولیس کے مطابق، گزشتہ دو ماہ میں، کے پی پولیس نے آئس، جو کہ حال ہی میں نوجوانوں میں مقبول ہوئی ہے، کی فروخت میں ملوث منشیات کے 310 ڈیلروں کو گرفتار کیا ہے۔

اضلاع، جہاں ایسی سب سے زیادہ گرفتاریاں ہوئی ہیں مردان (95) اور نوشہرہ (57) ہیں۔

مردان کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر ساجد خان نے کہا کہ "ہم نے منشیات کے ڈیلروں کے خلاف ایک بھرپور مہمشروع کی ہے خصوصی طور پر ان کے خلاف جو آئس فروخت کرتے ہیں تاکہ نئی نسل کو اس نشے سے بچایا جا سکے"۔

انہوں نے کہا کہ مردان میں پکڑے جانے والے ملزمان میں سے اکثریت تعلیمی اداروں اور نوجوانوں کے ہوسٹلوں کے قریب آئس فروخت کر رہی تھی۔

خان نے کہا کہ "صوبہ بھر میں کئی سو ملزمان کو ہیروئن، حشیش، افیم اور دیگر منشیات فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے"۔

خان نے کہا کہ پولیس اہلکار -- ان کے ساتھ حکومتی شعبے، منتخب اراکین، بزرگ اور مذہبی علماء -- عوام میں اس بات کی آگاہی پھیلا رہے ہیں کہ منشیات افراد اور معاشرے کے لیے کتنی خطرناک ہیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے نجی یونیورسٹی کے ایک طالبِ علم امجد علی نے کہا کہ "پولیس کی طرف سے کریک ڈاون اور آگاہی کی مہم کی انتہائی شدید ضرورت تھی کیونکہ ملک بھر میں لوگ آئس اور دوسری اقسام کی منشیات استعمال کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "بہت سے والدین، اساتذہ اور طلباء کو ہوسٹلوں اور تعلیمی اداروں کے قرب و جوار میں منشیات کی فروخت پر تشویش تھی"۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے منشیات کے ڈیلروں کے خلاف بہت سے اقدامات کیے ہیں اور گزشتہ چند ماہ میں صورتِ حال بہتر ہوئی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500