معاشرہ

خیبر پختونخواہ میں مذہبی علماء غیر قانونی منشیات کے خلاف جنگ میں شامل

جاوید خان

پشاور کے کیپیٹل سٹی پولیس افسر قاضی جمیل الرحمان 28 مارچ کو پشاور میں مذہبی علماء سے بات کر رہے ہیں۔ ]جاوید خان[

پشاور کے کیپیٹل سٹی پولیس افسر قاضی جمیل الرحمان 28 مارچ کو پشاور میں مذہبی علماء سے بات کر رہے ہیں۔ ]جاوید خان[

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) بھر سے مذہبی علماء نے عوام میں آگاہی پھیلانے سے غیر قانونی منشیات کے خلاف جنگ میں پولیس کی مدد کرنے کا عہد کیا ہے۔

کے پی کے سینئر حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے مذہبی علماء سے کہا ہے کہ وہ منشیات کے خلاف ان کی مہم میں مدد کریں کیونکہ علماء کا معاشرے پر گہرا اثر ہے اور ان کی مدد مسائل کو حل کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔

کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) قاضی جمیل الرحمان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ "ہم نے 28 مارچ کو پہلی بار اعلی مذہبی علماء کو پشاور میں ایک سیمینار میں بلایا اور عوام میں اس بارے میں آگاہی پھیلانے کے سلسلے میں کہ منشیات معاشرے کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں، ایک آگاہی مہم بنانے کے سلسلے میں ان کی مدد کی درخواست کی"۔

رحمان کے مطابق، یہ اپنی طرح کی پہلی میٹنگ تھی اور حکام نے اپریل اور مئی میں بھی مذہبی علماء سے بات چیت کی۔

رحمان نے کہا کہ "پولیس افسران نے انہیں بتایا کہ فورس نے پہلے ہیاس وباء کے خاتمے اور فروخت کنندگان، اسمگلروں اور تیارکنندگان کو پکڑنے کا کام کیا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس فراہمی کے راستوں کو بند کرنے اور ڈیلروں کو پکڑنے کا کام کر سکتی ہے مگر معاشرہ ایک مکمل اکائی کے طور پر، غیر قانونی منشیات کی مانگ کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اکیلی پولیس منشیات کی مانگ کو ختم نہیں کر سکتی اور اس سلسلے میں مذہبی علماء، منتخب حکام، بزرگ، سول سوسائٹی، والدین اور معاشرے کا ہر فرد ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے"۔

جمیل نے مزید کہا کہ سیمینار میں تمام مذہبی علماء نے عہد کیا کہ وہ جمعہ کے خطاب اور ہر روز کی نمازوں کے دوران اس پیغام کو پھیلائیں گے۔

معاشرے کے لیے ذمہ داری

اسلام ہر قسم کی غیر قانونی منشیات کے استعمال سے منع کرتا ہے اور انہیں حرام سمجھتا ہے۔

پشاور کے مضافات سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ امام مولانا سلیمان احمد نے کہا کہ غیر قانونی منشیات کے استغمال نے معاشرے کو متاثر کیا ہے اور ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے سے جنگ میں اپنا کردار ادا کرے۔

احمد نے کہا کہ "یہ مذہبی علماء اور معاشرے کے ارکان کے طور پر ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے شہروں اور ملک میں منشیات کی مانگ کو ختم کرنے کی کوشش کریں"۔

احمد کے مطابق، علماء کبھی کبھار روز کی نمازوں میں غیر قانونی منشیات اور دیگر ممنوعہ چیزوں کے نقصان دہ اثرات کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں مگر اب پولیس کے حکام سے ملاقات کے بعد وہ اس پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "میں نے اپنے طلباء اور نماز کے لیے آنے والوں کو کہا ہے کہ وہ کسی بھی حشیش، ہیروئن یا آئس کو استعمال کرنے والے کو جانتے ہوں تو مقامی پولیس کو مطلع کریں"۔

کے پی کے ایک اعلی مذہبی عالم اور سابقہ صوبائی وزیر قاری روح اللہ نے کہا کہ وہ پولیس کے اقدامات کو سراہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ملک کے مذہبی علماء تمام معاشرتی برائیوں سے جنگ کر رہے ہیں جن میں آئس، ہیروین، حشیش اور دیگر منشیات شامل ہیں"۔

انہوں نے عہد کیا کہ "یہ ہماری مذہبی اور سماجی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کو ہر قسم کی منشیات سے پاک کریں اور تمام مذہبی علماء اسے اچھے طریقے سے انجام دیں گے"۔

ایک وسیع کوشش

اماموں اور مذہبی علماء کے علاوہ، پولیس نے سرکاری اور نجی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ سے بھی رابطہ کیا ہے تاکہ وہ اس کوشش میں ان کی مدد کریں۔

مرادن ڈسٹرکٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ساجد خان نے کہا کہ "ہم نے تعلیمی اداروں کے سربراہان اور اساتذہ سے رابطہ کیا ہے تاکہ وہ طلباء اور ان کے والدین میں آئس، ہیروئن، حشیش اور تمام قسم کی منشیات کے نقصانات کے بارے میں آگاہی پھیلائیں"۔

انہوں نے کہا کہ ان کے معلوماتی سیشنز کا ردعمل بہت مثبت رہا۔

خان نے کہا کہ "ہم نے واکس اور سیمنار بھی منعقد کیے جن میں مذہبی علماء اساتذہ اور طلباء کی بڑی تعداد نے شرکت کی تاکہ عوام میں آگاہی پھیلائی جا سکے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500