دہشتگردی

پشاور کے چرچ پر ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے کی چھٹی برسی

غلام دستگیر

مسیحی برادری کے ارکان 15 ستمبر کو آل سینٹس چرچ کی سروس میں حصہ لے رہے ہیں۔ [غلام دستگیر]

مسیحی برادری کے ارکان 15 ستمبر کو آل سینٹس چرچ کی سروس میں حصہ لے رہے ہیں۔ [غلام دستگیر]

پشاور -- پشاور کی مسیحی برادری نے 22 ستمبر کو آل سینٹس چرچ میں ہونے والے ان جڑواں دھماکوں کی برسی منائی، جن میں 104 افراد ہلاک اور دیگر 142 زخمی ہو گئے تھے۔

درجنوں اہلکاروں پر مبنی ایک پولیس ٹیم جو کہ رائفلوں سے مسلح تھی، کو برسی سے ایک ہفتہ پہلے، اتوار کو ہونے والی عبادت کے موقع پر، چرچ کے عقبی داخلی دروازے پر کھڑا دیکھا جا سکتا تھا۔

سڑک پر لگائی گئی رکاوٹوں نے گاڑیوں کی ٹریفک کو روکا۔

چرچ کے اندر، پادری شہزاد مراد نے معمول کی اتوار کی سروس کی سربراہی کی۔

پشاور میں 15 ستمبر کو، آل سینٹس چرچ کے باہر سیکورٹی میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ [غلام دستگیر]

پشاور میں 15 ستمبر کو، آل سینٹس چرچ کے باہر سیکورٹی میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ [غلام دستگیر]

ایک پولیس اہلکار، 15 ستمبر کو آل سینٹس چرچ کے اوپر چوکس کھڑا ہے۔ [غلام دستگیر]

ایک پولیس اہلکار، 15 ستمبر کو آل سینٹس چرچ کے اوپر چوکس کھڑا ہے۔ [غلام دستگیر]

ایک عبادت گزار آزک جان، جن کے پانچ قریبی عزیز، جن میں ان کی بیٹی، بھابھی، دو بھانجے اور ایک بھانجی شامل ہے، ہلاک ہو گئے تھے، نے کہا کہ 22 ستمبر کو ہونے والے بم دھماکے ابھی بھی بہت سے عبادت گزاروں کو پریشان کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کی طرف سے مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر ہونے والے ایسے حملوں کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے، حکومت کی طرف سے لیے جانے والے اقدامات پر مطمیئن نہیں تھے۔

انہوں نے اس بات کو تفصیل سے بتاتے ہوئے کہ محرم کے جلوسوں کے دوران غیر شہریوں کے لیے تمام سڑکوں کو سیل کر دیا جاتا ہے، کہا کہ "ہم اپنی عبادت گاہوں پر ویسی ہی سیکورٹی چاہتے ہیں جو کہ محرم کے مہینے میں شعیہ ماتم گزاروں کو فراہم کی جاتی ہے"۔

دوسری طرف، مراد بظاہر سیکورٹی کے اقدامات سے مطمئین نظر آ رہے تھے۔

تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک ذیلی گروہ، جنداللہ نے اس قتلِ عام کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

متاثرین کے لیے معاوضہ

مراد نے کہا کہ 2013 میں بم دھماکوں کے بعد، مسیحی برادری نے ایسٹر کی شام کو معمول کے مطابق ہونے والے جلوس کو نکالنا بند کر دیا۔

"مگر اس سال، اپریل میں، ہم نے آل سینٹس چرچ سے جلوس نکالا۔ یہ کوہاٹی، یکاتوت، گنج، لاہوری اور حشتنگری سے گزرنے کے بعد، واپس وہیں پر ختم ہوا۔

پاکستانی حکام ابھی بھی 2013 کے حملوں کے متاثرین کو امداد فراہم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔

خیبر پختونخواہ (کے پی) کی حکومت نے بم دھماکوں کے ایک ماہ کے اندر، ہلاک ہونے والوں کے قریبی رشتہ داروں کو 500،000 روپے (6،400 ڈالر) اور زخمی ہونے والوں میں سے ہر ایک کو 200،000 روپے (2،550 ڈالر) تقسیم کیے تھے۔

یونائٹیڈ کرسچین ویکٹمز موومنٹ کے صدر خرم یعقوب سہوترہ کے مطابق، سندھ حکومت نے بھی یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے مماثل قدم اٹھایا۔ اس نے ہلاک ہونے والے افراد میں سے 73 کے قریبی رشتہ داروں اور زخمی ہونے والے 142 افراد میں سے 62 کو امداد فراہم کی ہے۔

اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی اکتوبر 2013 میں متاثرین کے لیے 200 ملین روپے (2.6 ملین ڈالر) کے اوقاف فنڈ کا اعلان کیا تھا، جس میں سے 100 ملین روپے (1.3ملین ڈالر) وفاقی حکومت نے فراہم کرنے تھے اور توقع تھی کہ صوبائی حکومت بھی اتنی ہی رقم فراہم کرے گی۔

کے پی کے شعبہ آفاق نے صرف حال ہی میں، صوبائی شعبہ قانون کو اوقاف فنڈ کے بارے میں ایک بل کو مسودہ بھیجا ہے۔

جانچ پڑتال کے بعد، یہ مسودہ، کے پی کی اسمبلی کی طرف اس پر، قانون بنائے جانے کے لیے غور کیے جانے سے پہلے، اسے منظوری کے لیے وزیراعلی کے دفتر بھیجا جائے گا۔

اس مسودہ کے تحت، یتیم ہو جانے والے لڑکوں کو 18 سال کی عمر تک پہنچنے تک اور یتیم لڑکیوں کو 18 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد بھی، جب تک ان کی شادی نہیں ہو جاتی، ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔ بیوہ ہو جانے والی خواتین کو عمر بھر کے لیے اس وقت تک وظیفہ فراہم کیا جائے گا جب تک کہ وہ دوسری شادی نہیں کر لیتیں۔

کے پی حکومت کے ایک ترجمان شوکت یوسف زئی نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں کی بہبود ایک ترجیح ہے۔

انہوں نے اس بات کا یقین دلاتے ہوئے کہ حکومت اوقاف فنڈ کو جلد از جلد قائم کرنے کے لیے قانونی عمل کو مکمل کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی، کہا کہ اوقاف فنڈ سے آل سینٹس چرچ بم دھماکوں کے متاثرین کو مالی امداد دینے میں مدد ملے گی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500