سلامتی

آنے والی کے پی نیشنل گیمز میں بحالیٴ امن کو نمایاں کیا جائے گا

عدیل سعید

اگست میں فٹ بال کے کھلاڑی کے پی فٹ بال ایسوسی ایشن کے صدر سیّد ظاہر علی شاہ کے ساتھ ایک تصویر بنوا رہے ہیں۔ کے پی اکتوبر میں نیشنل گیمز کا انعقاد کر رہا ہے۔ [عدیل سعید]

اگست میں فٹ بال کے کھلاڑی کے پی فٹ بال ایسوسی ایشن کے صدر سیّد ظاہر علی شاہ کے ساتھ ایک تصویر بنوا رہے ہیں۔ کے پی اکتوبر میں نیشنل گیمز کا انعقاد کر رہا ہے۔ [عدیل سعید]

پشاور – خیبر پختونخوا (کے پی) اکتوبر میں ہونے والے کثیر کھیلوں کے مقابلے، نیشنل گیمز کی میزبانی کرے گا جو کہ کئی برسوں کی عسکریت پسندی اور دہشتگردی کے محاصرے میں رہنے کے بعد اس علاقہ میں امن کی واپسی کو نمایاں کریں گی۔

یہ مقابلے، جو قبل ازاں 2010 میں کے پی میں منعقد ہوئے تھے، ملک بھر سے مختلف کھیلوں کے تقریباً 10,000 کھلاڑیوں اور منظمین کو صوبے کا دورہ کرنے اور کھیلوں میں اپنی منتخب شدہ مہارت میں حصہ لینے کا موقع فراہم کریں گے۔

وزیرِ اعظم عمران خان 21 اکتوبر کو آنے والی کھیلوں کا فتتاح کریں گے، اور 27 اکتوبر کو طے شدہ کھیلوں کی اختتامی تقریب میں صدر عارف علوی شریک ہوں گے۔

کے پی کے سینیئر وزیر برائے سیّاحت، ثقافت، کھیل، آثارِ قدیمہ، اور امورِ نوجوانان عاطف خان نے ایک انٹرویو میں کہا، "نیشنل گیمز کے انعقاد سےہم عالمی برادری کو بحالیٴ امن کا ایک پیغام دیں گے" اور خطے میں سیکیورٹی کی بہتری کو نمایاں کریں گے۔

خان کے مطابق، ان کھیلوں پر تقریباً 170 ملین روپے (1 ملین ڈالر) صرف ہوں گے۔

خان نے کہا کہ جبکہ صوبائی حکومت "امن پسند" باشندوں کے خطہ کے طور پر کے پی کے تصور کو فروغ دینے پر کام کر رہی ہے، اس نے علاقہ میںسیاحوں کی آمد کو یقینی بنانے کے لیے سیکیورٹی بہتر بنا کراور نئے پر کشش نظاروں والے مقامات کھول کر صوبہ کے شعبہٴ سیّاحت کی تعمیرِ نو بھی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چند مقابلے حال ہی میں کے پی میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں بھی منعقد ہوں گے۔

خان کے مطابق، ان اضلاع میں سے مقابلہ کے انعقاد کے لیے دو مقامات، ضلع خیبر میں جمرود سپورٹس کمپلیکس اور ضلع وزیرستان میں یونس خان سٹیڈیم، کا انتخاب کیا گیا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ان علاقوں میں نیشنل گیمز کے مقابلے ہوں گے۔

غلط آراء کا خاتمہ

تقریباً ایک دہائی قبل، کے پی میں عسکریت پسندی انتہا پر تھی اور دہشتگرد مقامی باشندوں کے مابین خوف و حراس پھیلانے کے لیے خطے میں کھیلوں کے مقابلوں کو ہدف بناتے تھے۔

مثال کے طور پر 2010 میں ایک خود کش بمبار نے کے پی کے ضلع لکی مروت میں ایک والی بال میچ کے دوران تماشائیوں سے بھرے کھیل کے ایک کھلے میدان میں دھماکہ خیز مواد سے لدی ایک گاڑی اڑا دی، جس سے 100 سے زائد افراد جاںبحق ہوئے۔

کے پی اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر عاقل علی شاہ نے کہا، "کے پی میں نیشنل گیمز کے انعقاد کا مقصد خطے میں امن اور معمول کی واپسی پر عوام اور کھلاڑیوں کے اعتماد کی بحالی ہے۔"

شاہ نے کہا کہ یہ 33 ویں نیشنل گیمز ہوں گی، جن میں 34 مختلف کھیلوں کے کھلاڑی حصّہ لیں گے۔ ان 34 کھیلوں میں سے 27 میں خواتین کھلاڑی شامل ہوں گی۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے کھیلوں کے ایک سینیئر صحافی اور سپورٹس رائیٹرز ایسوسی ایشن کے پی کے صدر، اعجاز احمد نے کہا، "آنے والی نیشنل گیمز پشاور میں منعقد ہونے والی ساتویں نیشنل گیمز ہوں گی۔"

انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا، "قبل ازاں 2010 میں پاک فوج کی جانب سے نہایت سخت سیکیورٹی انتظامات میں نیشنل گیمز منعقد ہوئیں۔"

احمد نے کہا کہ ایسے بڑے مقابلے تمام شعبہ ہائے زندگی کے ارکان – بشمول کھلاڑی، صحافی، منتظمین اور سیاست دانوں – کو خطے میں ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور بات چیت کرنے کا ایک موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ تنوع نہ صرف روابط تشکیل دینے اور ان میں توسیع کے لیے معاون ہے بلکہ کے پی سے متعلق غلط آراء کی بھی نفی کرتا ہے۔

ان کھیلوں کے لیے میڈیا کمیٹی کی سربراہی کرنے والے احمد نے کہا کہ ان مقابلوں کو کور کرنے کے لیے ملک بھر سے تقریباً 30 صحافی پشاور آئیں گے۔

احمد نے مزید کہا کہ نیشنل گیمز کے لیے مشعل ریلی کراچی میں مزارِ قائد سے شروع ہو گی اور کوئٹہ، لاہور اور اسلام آباد اور ضلع خیبر میں تورخم میں بابِ خیبر سے ہوتی ہوئی اپنی حتمی منزل پشاور تک پہنچے گی۔

کے پی سائکلنگ ایسوسی ایشن کے صدر ناصر خان نے کہا، "نیشنل گیمز کا انعقاد نوجوانوں کو کھیلوں کی طرف لائے گا اور شرکت کرنے اور اپنی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے آج کے دور کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرے گا۔"

انہوں نے کہا کہ اگر نوجوانوں کو کھیلنے کے لیے موزوں ماحول دستیاب ہو تو کے پی کے پاسکھلاڑی پیدا کرنے کی شاندار استعداد ہے، انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل گیمز کا انعقاد درست سمت میں ایک اقدام ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500