تعلیم

صوبہ کے پی میں پہلے سمارٹ کنٹینر سکول کی تنصیب

ظاہر شاہ

اگست میں کارکنان ضلع لکی مروت میں پہلا کنٹینر سکول مکمل کر رہے ہیں۔ [ظاہر شاہ]

اگست میں کارکنان ضلع لکی مروت میں پہلا کنٹینر سکول مکمل کر رہے ہیں۔ [ظاہر شاہ]

پشاور — صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ کم لاگت والے کنٹینر سکول خیبر پختونخواہ (کے پی) میں متعارف کرائے جا رہے ہیں اور تعلیم میں انقلاب برپا کر رہے ہیں۔

جدید ”سمارٹ“ سکولوں کی تنصیب کی کوششوں کا مقصد صوبے کے دورافتادہ علاقوں میں تعلیم فراہم کرنا ہے تاکہ بچے شدت پسندی اور دہشتگردی کے علاوہ دیگر انتخابات سے متعلق سوچ سکیں۔

اس طرز کا پہلا سکول 17 اگست کو ضلع لکی مروت میں کھولا گیا۔

کے پی کے وزیرِ تعلیم محمّد عاطف خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمارٹ سکول ”ایسے علاقوں میں آ رہے ہیں جہاں عسکریت پسندی، سیلاب اور زلزلے سے سکولوں کو نقصان پہنچا یا تباہ ہو گئے۔“

کے پی کے حکام نے کہا کہ آئندہ مہینوں میں عسکریت پسندی اور آفات سے متاثرہ علاقوں میں اس طرز کے تقریباً 200 سکول لائے جا رہے ہیں۔

شمسی توانائی اور جدید سہولیات

لکی مروت کنٹینر سکول نو کنٹینرز پر مشتمل ہے اور اس میں تقریباً 180 طالبِ علموں کی گنجائش ہے۔ ایک سیکیورٹی گارڈ سکول کا تحفظ کرے گا۔

یہ کنٹینر اپنی ائیرکنڈیشنگ کے لیے توانائی فراہم کرنے کے لیے شمسی توانائی پر منحصر ہے اور اس میں بچوں کی حاضری کی تصدیق کے لیے بایو میٹرک نظام موجود ہے۔

معلّمین کا کہنا ہے کہ کنٹینر سکول شورش زدہ یا دورافتادہ علاقوں میں بچوں کو تعلیم کی جانب مائل کرنے کا ایک سستا ذریعہ ہوں گے۔

عاطف نے کہا، ”شمسی توانائی سے لیس سکولوں کی ساخت کی عمر 40 برس ہو گی۔“ انہوں نے حال ہی میں لکی مروت میں نئے سکول کا دورہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ کنٹینر سکولوں کی تعمیر اینٹ گارے سے بنے روائتی سکولوں کی نسبت تیز تر ہے۔

شدید متاثرہ علاقوں میں خدمت

عاطف نے کہا کہ کے پی میں صوبے بھر میں ”تقریباً 40,000 اساتذہ بھرتی کیے گئے ہیں اور سکولوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے متوقع طور پر 15,000 مزید لائے جائیں گے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ سمارٹ سکولز میں ”خصوصی تربیت یافتہ اساتذہ“ کام کریں گے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ترقیاتی ماہر قمر نسیم نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سمارٹ سکول ایسے علاقوں کے لیے ایک بہترین انتخاب ہیں جہاں یا تو عسکریت پسندوں نے سکول تباہ کر دیے یا جہاں سرے سے سکول دستیاب ہی نہ تھے۔

نسیم نے کہا کہ ایسے علاقوں میں والدین کے پاس مدرسوں کے علاوہ کوئی اور انتخاب نہیں، جو کہ ممکنہ طور پر عدم رواداری کو فروغ دے سکتے ہیں۔

نسیم نے کہا، ”والدین ۔۔۔ جانتے ہیں کہ تعلیم ہی کامیابی کی واحد کنجی ہے۔“ انہوں نے کہا کہ چند واقعات میں بچوں نے بم سے تباہ شدہ سکول کے ملبے میں جماعت میں شرکت کی ہے۔

سوات نے دکھایا کہ عسکریت پسند کیا چاہتے ہیں

سوات میں حقوقِ نسواں کی این جی او شرکت گاہ کی سربراہ نیلم رحیم نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2007 سے 2009 تک وادیٔ سوات میں عسکریت پسندوں کی دہشتگردی کے دورِ تسلط – جو افواج کی جانب سے انہیں نکال باہر کیے جانے پر ہی ختم ہوا -- کے دوران عسکریت پسندوں نے 400 سے زائد سکول تباہ کیے۔

وادیٔ سوات میں سکول ٹیچر تبسم گل نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد بچوں، بطورِ خاص لڑکیوں کو ناخواندہ رکھنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کنٹینر سکول سوات میں محروم بچوں کو اینٹ گارے سے بنے سکولوں، جن کی تعمیر میں طویل وقت درکار ہوتا ہے، کی نسبت بہت تیزی سے تعلیم کی فراہمی کا آغاز کر سکتے ہیں۔

نیلم رحیم نے کہا کہ سمارٹ سکول سوات، مالاکنڈ ڈویژن اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) جیسے شورش زدہ علاقوں میں شدت پسندی اور دہشتگردی کو شکست دینے میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔

لکی مروت پرائمری سکول ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر حاجی عبد الرّحیم نے کہا کہ یہ کنٹینر سکول تمام موسمی حالات میں کارآمد ہیں اور شدت پسندی کے زہرآلود پیغام سے ایک پناہ فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں نے گزشتہ برسوں میں لکی مروت میں بھی متعدد سکولوں کو دھماکے سے اڑا دیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500