صحت

نئی پولیو مہم کے آغاز پر حکومت آگاہی پر مرکوز رہے گی

اشفاق یوسفزئی

26 اگست کو خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان پشاور میں ایک بچے کو انسدادِ پولیو کے قطرے پلا رہے ہیں۔ [حکومتِ کے پی]

26 اگست کو خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان پشاور میں ایک بچے کو انسدادِ پولیو کے قطرے پلا رہے ہیں۔ [حکومتِ کے پی]

پشاور – بچوں کو اس بیماری سے بچانے کے لیے پاکستان میں پیر (26 اگست) کو شدید خدشہ والے 46 اضلاع میں ایک پولیو ویکسینیشن مہم کا آغاز کیا گیا۔

اپریل میں سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور پیغامات میں پولیو ویکسینز کی وجہ سے بچوں کے بیمار ہونے کے غلط دعوے کے بعدخوف و حراس کے مقام، ماشوخیل گاؤں سے حکومت نے پولیو مہم کا آغاز کیا۔ خوف و حراس کا شکار والدین ہزاروں بچوں کو بلا ضرورت ہی خیبر پختونخوا (کے پی) کے ہسپتالوں میں لے آئے۔

انسدادِ پولیو کے لیے وزیرِ اعظم کے فوکل پرسن بابر بن عطا نے ایک تقریب میں کہا کہ حکومت ویکسینیشن کی ضرورت کے لیے عوامی آگاہی پیدا کرنے پر مرتکز ہونے جا رہی ہے۔

عطا نے کہا کہ ملک بھر میں کل 8.5 ملین بچوں کو ویکسین دی جائے گی۔

جون میں لکی مروت میں ویکسینیٹرز پولیو کے قطرے پلا رہے ہیں۔ [کے پی محکمہٴ صحت]

جون میں لکی مروت میں ویکسینیٹرز پولیو کے قطرے پلا رہے ہیں۔ [کے پی محکمہٴ صحت]

26 اگست کو صوابی کے غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ میں وزیرِ اعظم عمران خان بچوں کو ویکسین دے رہے ہیں۔ [بابر عطا ٹویٹر]

26 اگست کو صوابی کے غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ میں وزیرِ اعظم عمران خان بچوں کو ویکسین دے رہے ہیں۔ [بابر عطا ٹویٹر]

انہوں نے افواہوں کے مصدر سکولوں میں سے ایک، دارالقلم سکول کے ڈائریکٹر محمّد نظر کو قطرے پلائے۔

کے پی کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے ماشوخیل میں ایک تقریب میں کہا کہ یہ مہم 4.6 ملین بچوں کے ہدف کے ساتھ 29 اضلاع میں شروع ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مہم یکم ستمبر تک جاری رہے گی، انہوں نے مزید کہا کہ حکام نے ہیلتھ ورکرز کو دہشتگردوں سے تحفظ فراہم کرنے کے انتظامات کیے ہیں۔

21 اگست کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیرِ اعظم خان نے انسدادِ پولیو کو حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک قرار دیا۔

پولیو کے واقعات میں حالیہ اضافہ پر شدید خدشات کا اظہار کرتے ہوئے، خان نے وفاقی اور صوبائی حکام کو آگاہی اور ایمیونائزیشن کی مؤثر مہمات چلانے کی ہدایت کی۔

انہوں نے اس مرض کی انسداد میں مدد کے دوران قتل ہو جانے والے پولیو کارکنان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ 2012 سے اب تک ہیلتھ ورکرز اور پولیس اہلکاروں سمیت 76 افراد جاںبحق ہو چکے ہیں۔

پاک فوج نے بھی پولیو ٹیموں کو ملک کے دوردراز علاقوں کے بچوں تک پہنچنے کے لیے مکمل معاونت کی یقین دہانی کرائی۔

ویکسینیشن مخالفین سے نمٹنا

کے پی کے وزیرِ اطلاعات شوکت یوسفزئی نے ماشوخیل میں تقریب کے دوران کہا کہ حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کو ویکسینیٹ کرنے کے لیے رضامند کیا جائے اور طاقت کے استعمال سے باز رہا جائے۔

یوسفزئی نے کہا کہ ایسے ویکسینیشن مخالفین جو ویکسینیشن مہم کو حکومت سے مطالبات – مثلاً ٹیکسوں کی واپسی، سڑکوں کی تعمیر اور بجلی و پانی کی فراہمی—کے لیے استعمال کرتے ہیں، کے خلاف ملک کے قانونِ انسدادِ دہشتگردی کے تحت کاروائی کی جائے گی۔

بنوں، جہاں ملک بھرمیں ریکارڈ کیے گئے 58 پولیو واقعات میں سے 22 سامنے آئے، کے تاجران نے 17 اگست کو اعلان کیا کہ وہ تب تک اپنے بچوں کو ویکسین نہیں دلائیں گے جب تک حکومت ٹیکسوں میں کمی نہیں کرتی۔

یوسفزئی نے کہا کہ حکومتِ کے پی عوام کو ایک پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے ویکسینیشن کی مخالفت ترک کر دیں۔

پشاور کے شدید خدشہ کے علاقوں میں ایک 22 سالہ پولیو کارکن شاہین بی بی نے کہا کہ اس نے ویکسینیشن کے مخالفین کی جانب سے پیدا کیے گئے چیلنج کو قبول کیا ہے اور اپنے علاقہ میں ہر بچے تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔

انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا، "ہم ان خدشات سے غیر متزلزل ہیں اور بچوں کو ویکسینیشن سے محروم نہیں چھوڑیں گے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ عسکریت پسند اور دہشتگرد معاشرے کے دشمن ہیں کیوں کہ یہ بچوں کو معذور کرنا چاہتے ہیں اور ان کے سکول بند کرنا چاہتے ہیں۔

بی بی نے کہا کہ ویکسینیٹرز کو روکنا اور سکولوں کو اڑانا عسکریت پسندوں کے ایجنڈا میں ہے تاکہ عوام تکلیف میں رہیں، لیکن پاکستانی اپنے بچوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

بنّوں کے ایک سکول ٹیچر، مشتاق علی نے کہا کہ ویکسینیٹر ویکسینز پلائیں گے اور کسی کو پاکستانی بچوں کی صحت کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا، "میں حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ ویکسینیشن کو نقصان پہنچانے والے عناصر کے خلاف سخت کاروائی کریں۔ بچوں کو بیماریوں کی زد میں لانا دہشتگردی کی بدترین شکل ہے۔"

عسکریت پسندی اور پولیو

کے پی کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر ارشد خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان بچوں کی ایمیونائزیشن میں رکاوٹ بننے والے بنیاد پرست عناصر کی وجہ سے پولیو وائرس کا ایک عالمی ذخیرہ بن چکا ہے۔

افغانستان، جوکہ ایک اور ایسا ملک ہے جہاں پولیو عام ہے، میں رواں برس طالبان کے زیرِ انتظام علاقوں میں 12 واقعات درج کیے گئے۔

ضلع شمالی وزیرستان میں ایک پولیو افسر ڈاکٹر غفران خان نے کہا کہ رواں برس کے پی میں عسکریت پسندی اور غلط فہمیاں 41 بچوں کی معذوری کا باعث بنی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ رواں برس شمالی وزیرستان میں صرف والدین کی ویکسینیشن سے بے اعتنائی کی وجہ سے آٹھ واقعات سامنے آئے ہیں۔

یونیورسٹی ٹاؤن پشاور میں مفتی غلام حیدر نے کہا کہ بچوں کو بیماریوں سے بچانا اور ان کی صحت مند نشونما کو یقینی بنانا والدین کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا، "جو اپنے بچوں کو ویکسین دلانے کے لیے رضامند نہیں ہیں، وہ اسلام کے ان احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جو بچوں کو بیماریوں سے بچانے کے متقاضی ہیں۔ دہشتگردوں کو اپنے منحوس ایجنڈا کی پیش قدمی کے لیے بچوں کی زندگیاں خطرے میں نہیں ڈالنی چاہیئں۔"

کے پی میں پولیو کے لیے ہنگامی آپریشنز کے مرکز کے معاون کامران آفریدی نے کہا کہ نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کوپولیو ویکسین کے خلاف غلط افواہیں پھیلانے والوںپر نظر رکھنے کے احکامات ہیں۔

انہوں نے کہا، "انسدادِ پولیو کے لیے دنیا بھر میں یہی ویکسین استعمال ہوتی ہے، اور عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق یہ بچوں کے لیے محفوظ ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500