معیشت

سی پیک 10 سال بعد: چینی قرضوں سے پاکستان کے بحران کے خطرے میں اضافہ

از زرک خان

وزیراعظم شہباز شریف اور چینی سفارت خانے کی چارج ڈی افیئرز محترمہ پانگ چنکسو نے 5 جولائی کو اسلام آباد میں سی پیک کے معاہدے پر دستخط کی 10 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک کیک کاٹا۔ [پاکستانی حکومت]

وزیراعظم شہباز شریف اور چینی سفارت خانے کی چارج ڈی افیئرز محترمہ پانگ چنکسو نے 5 جولائی کو اسلام آباد میں سی پیک کے معاہدے پر دستخط کی 10 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک کیک کاٹا۔ [پاکستانی حکومت]

اس ماہ، چین اور پاکستان چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے اقتصادی تعاون کے 10 سال مکمل کر رہے ہیں، جو بیجنگ کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کا پاکستانی جزوہے.

تاہم، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران سی پیک کے تحت چین کے ساتھ قرضوں اور مالیاتی معاہدوں نے پاکستان کے قرضوں میں اضافہ کیا ہے اور ملک کو معاشی اور سیاسی بحرانوں کا شکار بنا دیا ہے۔

پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بدھ (5 جولائی) کو کہا کہ ان کی حکومت "سی پیک کی رفتار کو تیز کر رہی ہے، جو کہ غربت، بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے خاتمے کے لیے گیم چینجر منصوبہ ہے"۔

شریف نے سی پیک کے 10 سال مکمل ہونے پر وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا، " سی پیک ناصرف خطوں بلکہ لوگوں کے دلوں کے رابطے کا ایک خوبصورت منصوبہ ہے"۔

آئی ایم ایف بیل آؤٹ

شریف کی حکومت کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔

جیسا کہ اس وقت رائٹرز نے خبر دی تھی کہ جون تک، پاکستان کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر اس سطح تک کم ہو چکے تھے جو بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کو برقرار رکھ سکتے تھے۔

پاکستان کے تقریباً ڈیفالٹ ہونے پر، -- چین نہیں -- مغرب نے اسے بچایا۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے 30 جون کو پاکستان کو 3 بلین ڈالر کے قرضے کے پروگرام کے ساتھ بیل آؤٹ کیا، جس سے جنوبی ایشیائی ملک کے لیے ایک اشد ضروری مہلت دی گئی ہے۔

روزنامہ ڈان نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے پیر کو خبر دی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے میں پاکستان کی مدد کرنے میں امریکہ نے پس پردہ اہم کردار ادا کیا ہے۔

پاکستانی وزارتِ خزانہ میں کام کرنے والے اسلام آباد کے مقامی ایک ماہرِ معاشیات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "واشنگٹن کی مہربانی سے، اسلام آباد کو آئی ایم ایف سے کم از کم نو ماہ کے لیے عارضی طور پر اہم ریلیف ملا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "مگر چینی قرضوں سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر، پاکستان اپنی معاشی مشکلات کو حل نہیں کر سکتا"۔

پاکستان ان ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے جو چینی قرض دہندگان کے بہت زیادہ مقروض ہیں۔ ان ممالک کو معاشی مشکلات کا بھی سامنا ہے، اور انہیں چین سے لیے گئے اپنے قرضوں میں نادہندہ ہونے کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا ہے۔

مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے فروری کے ایک تجزیے سے پتا چلا ہے کہ پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کا تقریباً 30 فیصد چین کا واجب الادا ہے، بشمول سرکاری کمرشل بینکوں کا۔

تھنک ٹینک نے نوٹ کیا کہ "پاکستان چین سے نئی مالی اعانت لینے کے لیے اس سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہے جتنا کہ چین اسے فراہم کر سکتا ہے"۔

اس نے کہا،"حتیٰ کہ جب معیشت بھاری قرضوں کے بوجھ اور دیگر شدید چیلنجوں تلے ڈوب رہی ہے، پاکستانی حکام نے مین لائن-1 (ایم ایل-1) ریل روڈ کو اپ گریڈ کرنے کے لیے چین سے مدد مانگ لی ہے"۔

ایم ایل-1 ریلوے پاکستان میں سی پیک سے منسلک ایک بڑا ریل منصوبہ ہے، جس کی ایک حالیہ مثال کے طور پر پاکستان نے حال ہی میں چین سے قرض لینے والی رقم میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ قرض 6.8 بلین ڈالر سے بڑھ کر 9.85 بلین ڈالر ہو رہا ہے۔

سی پیک کے 10 سال

سی پیک سنہ 2013 میں اپنے آغاز سے ہی گرما گرم بحث کا موضوع رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بہت مہنگا ہے اور پاکستان ان قرضوں کی ادائیگی نہیں کر سکے گا جو یہ اس کی مالی اعانت کے لیے لے چکا ہے۔

ناجائز قرضوں کے خاتمے کے لیے کمیٹی (سی اے ڈی ٹی ایم)، بین الاقوامی کارکنوں کا ایک نیٹ ورک جس کا ہیڈ کوارٹر بیلجیم میں ہے، کے پاکستانی نمائندے عبدالخالق نے 16 مئی کو سی اے ڈی ٹی ایم کی ویب سائٹ پر لکھا، "سی پیک کے تحت قرضوں کو معاشی طور پر ناقابلِ عمل سمجھا جاتا ہے، اور اس کے نتیجے میں، پاکستان کو اب اپنی ادائیگی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے"۔

خلیق نے مزید کہا، "معاشی ماہرین کی طرف سے خبردار کیا گیا تھا کہ جب چینی سرمایہ کار منافعے کی واپسی شروع کریں گے اور سنہ 2021 کے بعد، جب ادائیگیوں میں اضافہ متوقع ہے، اگر سی پیک خاطر خواہ ترقی نہیں کرتا ہے، تو چینی بینکوں کے قرضوں سے پاکستان کے قرض کا ایک بوجھ بننے کا خطرہ ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

آئی ایم ایف بیل آؤٹ کا زیادہ تر حصہ چین اور بد عنوان سیاست دانوں وغیرہ کو جائے گا، لہٰذا نو ماہ میں پاکستان اسی موڑ پر بخشیش طلب کر رہا ہو گا۔

جواب