حقوقِ نسواں

بیوٹی پارلر بند کرنے کے حکم سے افغان خواتین مایوس

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

4 جولائی کو کابل میں شہرِ نو کے علاقہ سے ایک بیوٹی سیلون کے پاس سے گزر رہی ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

4 جولائی کو کابل میں شہرِ نو کے علاقہ سے ایک بیوٹی سیلون کے پاس سے گزر رہی ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

کابل – افغانستان بھر میں ایک ماہ کے اندر بیوٹی پارلرز کو بند کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے، جو کہ خواتین کو عوامی زندگی سے باہر دھکیلنے کے لیے تازہ ترین اقدام ہے۔

منگل (4 جولائی) کا یہ حکم خواتین کے زیرِ انتظام ہزاروں کاروباروں کو جبراً بند کر دے گا – جو کہ اکثر گھرانے کا واحد ذریعۂ آمدنی ہے – اور ان کے لیے گھر سے باہر سماجی سرگرمیوں کے چند باقی ماندہ مواقع میں سے ایک کو غیر قانونی بنا دے گا۔

کابل کے ایک پارلر کی مینیجر، جنہوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھے جانے کا کہا، کا کہنا تھا، ”میرے خیال سے یہ اچھا ہوتا اگر خواتین کا اس معاشرے میں وجود ہی نہ ہوتا۔“

”اب میں یہ کہہ رہی ہوں: میں چاہتی ہوں میرا وجود ہی نہ ہوتا۔ کاش ہم افغانستان میں نہ پیدا ہوئی ہوتیں، یا ہم افغانستان سے نہ ہوتیں۔“

اگست 2021 سے، لڑکیاں اور عورتیں ہائی سکولوں اور جامعات سے باہر کر دی گئیں؛ تفریح گاہوں، تفریحی میلوں اور ورزش گاہوں میں ان پر پابندی لگا دی گئی؛ اور انہیں حکم دے دیا گیا کہ عوامی مقامات پر پردہ کریں۔

خواتین کو اکثر اقوامِ متحدہ (یو این) یا غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام رکنے سے روک دیا گیا ہے، اور ہزاروں کو سرکاری ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا ہے یا گھر بیٹھنے کے لیے پیسے دیے جا رہے ہیں۔

'بات چیت اور گپ شپ'

کابل اور دیگر افغان شہروں میں 20 برس سے زائد عرصہ سے بیوٹی پارلر پھیل رہے ہیں۔

انہیں مردوں سے الگ جمع ہونے اور سماجی سرگرمیوں کے لیے محفوظ مقامات کے طور پر تصور کیا جاتا تھا اور یہ خواتین کے لیے اہم کاروباری مواقع فراہم کرتے تھے۔

صرف نیلاب کے طور پر شناخت کیے جانے کی درخواست کرنے والی ایک سیلیون کارکن نے کہا، ”خواتین بات چیت اور گپ شپ لگایا کرتی تھیں۔ یہاں کوئی لڑائی کوئی شور شرابا نہیں تھا۔“

”جب ہم یہاں خوش اور سرگرم چہرے دیکھتے ہیں تو ہم بھی تروتازہ محسوس کرتے ہیں۔ سیلون کا نہایت اہم کردار ہے؛ اس جگہ ہم پرسکون محسوس کرتے ہیں۔“

ایک دیگر سیلون مینیجر نے کہا کہ اس نے 25 خواتین ملازمین رکھی تھیں جو کہ اپنے خاندانوں کی کفیل تھیں۔

اس نے کہا، ”ان سب کے دل ٹوٹے ہیں۔۔۔ وہ کیا کریں؟“

گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کاؤنسل کے افغنستان کے مندوب رچرڈ بینیٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک میں خواتین اور لڑکیوں کی حالتِ زار ”دنیا بھر میں بدترین ہے۔“

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ”خواتین اور لڑکیوں کے خلاف شدید، منظم اور روایتی امتیازی سلوک ”جنسی عصبیت“ سے متعلق خدشات پیدا کرتا ہے۔

'کس وجہ سے؟'

منگل کو افغانستان میں اقوامِ متحدہ معاون مشن (یو این اے ایم اے) نے سیلون کے حکم کی تنسیخ کی استدعا کی۔

اس نے ایک ٹویٹ میں کہا، ”خواتین کے حقوق پر یہ نئی پابندی معیشت پر منفی اثر مرتب کرے گی اور یہ خواتین کے کاروبار کرنے کی بیان شدہ حمایت کے منافی ہے۔“

ایک برس قبل جامعہ سے روک دیے جانے سے قبل ایک 24 سالہ طالبہ راہا، منگل کو منگنی کی ایک تقریب سے قبل سنگھار کے لیے ایک سیلون جا رہی تھی۔

اس نے کہا، ”یہ خواتین کے اپنے لیے کمانے کی غرض سے واحد جگہ بچی تھی، اور وہ اسے بھی لے لینا چاہتے ہیں۔“

”یہ ہم سب کے لیے ایک سوال ہے— وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کس وجہ سے؟“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500