معیشت

پانی کے حقوق کے حصول کے لیے ایران، افغانستان کے معاشی بحران سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے

از سلیمان

یہ تصویر جو کہ 21 مارچ 2021 کو لی گئی میں، صوبہ ہلمند کے علاقے کجاکی میں ہائیڈرو پاور کجاکی ڈیم کا ایک عمومی منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

یہ تصویر جو کہ 21 مارچ 2021 کو لی گئی میں، صوبہ ہلمند کے علاقے کجاکی میں ہائیڈرو پاور کجاکی ڈیم کا ایک عمومی منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

کابل -- افغان مبصرین کا کہنا ہے کہ ایرانی حکام، افغانستان کی نازک اقتصادی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دریائے ہلمند کے پانی کے بہاؤ پر، کابل پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

تہران ٹائمز کی خبر کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے 28 جولائی کو کہا کہ تہران کو اپنے آبی حقوق استعمال کرنے کی اجازت دینا، افغانستان کی طرف سے بین الاقوامی قانون کے تحت، اپنے وعدوں کی پاسداری کے ایک لازمی اشارے کے طور پر کام کرے گی۔

امیر عبداللہیان نے اپنا یہ تبصرہ، افغانستان کی طرف سے دریائے ہلمند پر 100 میگاواٹ کجاکی ڈیم کے دوسرے مرحلے کا افتتاح کرنے کے ایک دن بعد کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان اور بلوچستان کا دارومدار دریائے ہلمند کے پانی پر ہے اور متنبہ کیا کہ اس مسئلے کو جلد حل کرنے میں ناکامی، دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے دیگر شعبوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

افغان شہری، 11 اپریل کو کابل میں ایرانی سفارت خانے کے سامنے، ایران میں افغان مہاجرین کو ہراساں کیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

افغان شہری، 11 اپریل کو کابل میں ایرانی سفارت خانے کے سامنے، ایران میں افغان مہاجرین کو ہراساں کیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

انہوں نے کہا کہ ایران کی وزارتِ توانائی کا ایک اعلیٰ سطحی وفد، افغانستان کا دورہ کرے گا تاکہ وہ ان باقی ماندہ رکاوٹوں کو دور کرنے پر کام کرے جو ایران کو دریا سے براہ راست پانی کھینچنے سے روکتی ہیں۔

افغانستان اور ایران کے درمیان، 1973 میں ہونے والے ہلمند ریور واٹر ٹریٹی کے تحت، ایران کو دریا سے 26 کیوبک میٹر فی سیکنڈ پانی حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔

کئی دہائیوں سے، ایران کو اس معاہدے میں طے شدہ مقدار سے، کئی بلین کیوبک میٹر سے زیادہ مفت پانی سالانہ طور پر ملتا رہا ہے لیکن افغان ڈیموں نے اب پانی کو افغانستان میں رکھنا شروع کر دیا ہے۔

ایرانی حکام کی جانب سے مظلوم بننے کی کوششوں نے، طویل عرصے سے افغان مبصرین کو ناراض کیے رکھا ہے۔

کابل یونیورسٹی کے پروفیسر اور پانی کے مسائل کے محقق نجیب آقا فہیم نے کہا کہ "حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں اور مسلسل جاری خشک سالی کے باعث، دریائے ہلمند میں پانی کی سطح میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایسے حالات میں ایران اور افغانستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق ایران کے پانی کے حقوق میں بھی کمی آئی ہے۔"

فہیم جو اس سے قبل وزارت خارجہ میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے وزیر مملکت اور معاہدوں کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں نے کہا کہ"لہذا، ایرانیوں کو شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔"

"چونکہ افغانستان مستقل خشک سالی کا شکار ہے اور پانی کی سطح گر گئی ہے، اس لیے ایرانی حکام کی جانب سے پانی کے حقوق کے حوالے سے نیا نقطہ نظر اور مطالبات معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔"

فہیم نے کہا کہ "ایران کو پچھلے 40 سالوں میں، دونوں فریقوں کی طرف سے اتفاق کردہ مقدار سے کئی گنا زیادہ پانی ملتا رہا ہے۔"

"اس وقت موجود افراتفری اور عدم استحکام، سنگین معاشی حالات اور افغانستان میں بے روزگاری کا فائدہ اٹھا کر، ایرانی حکام افغانستان میں اپنے مقاصد اور خواہشات کے حصول کے لیے، دباؤ کے مختلف ذرائع استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

کابل پر دباؤ ڈالنا

فہیم نے کہا کہ "معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، مفت پانی حاصل کرنا ایران کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے۔"

"ایران کو افغانستان سے آنے والے پانی کے ہر قطرے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کی حکومت اپنے شہریوں کی طرف سے شدید دباؤ کا شکار ہے کیونکہ ہم نے حالیہ مہینوں میں ایرانی شہریوں کی طرف سے کیے جانے والے کئی احتجاج دیکھے ہیں جن میں انہوں نے اپنی حکومت پر، پانی اور ماحولیات کے شعبوں میں نااہلی اور بدانتظامی کا الزام لگایا ہے۔"

"ایران کی حکومت کے پاس اپنے شہریوں کے لیے کوئی جواب نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے ایسے غریب پڑوسی پر جو کہ بہت سے دوسرے مسائل میں گھرا ہوا ہے، الزام لگاتی ہے کہ وہ پانی کے معاہدے پر عمل درآمد نہیں کر رہا ہے۔ ایسا صرف رائے عامہ کو دھوکہ دینے اور گمراہ کرنے کے لیے اور ایران کی حکومت کی نااہلی اور بدانتظامی کو چھپانے کے لیے کیا جا رہا ہے"۔

فہیم نے مزید کہا کہ "ایرانی حکام کی جانب سے ایران کے پانی کے حقوق کے حوالے سے جو حالیہ موقف اختیار کیا گیا ہے اس کے سیاسی مقاصد ہیں۔"

"ایک طرف، وہ سیستان اور بلوچستان کے علاقے میں خشک سالی اور پانی کی قلت کا الزام افغانیوں پر ڈالنا چاہتے ہیں، دوسری طرف، وہ افغان فریق پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ افغانستان سے ایران کی طرف پانی کے بہاؤ کے تسلسل کو یقینی بنائے۔"

انہوں نے کہا کہ "ایرانی حکام، افغان فریق پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے بغیر کسی وجہ کے انہیں ان کا پورا پانی نہیں دیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دریائے ہلمند کے پانی کے علاوہ، ایرانی فرح اور دیگر علاقوں میں تین یا چار دیگر دریاؤں سے بہنے والے پانی کو ایرانی علاقے میں استعمال کر رہے ہیں۔"

فہیم نے کہا کہ "افغانستان پر دباؤ ڈال کر، ایرانی حکومت ان تمام ترقیاتی اور اقتصادی منصوبوں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے جو افغانستان اپنے پانیوں سے متعلق نافذ کر رہا ہے۔"

"مثال کے طور پر، ایرانی چاہتے ہیں کہ کجاکی، بخش آباد اور سلمہ ڈیموں سے متعلق منصوبوں کو روک دیا جائے تاکہ وہ افغانستان کے پانی کو غیر معینہ مدت تک استعمال کر سکیں، جو کہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔"

تنازعہ کو بھڑکانا

کابل سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار سلیم پائیگیر نے کہا کہ "ایرانی حکومت افغانستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ " پناہ گزینوں کو اذیتیں دینا اور ملک بدر کرنا، ایسے تجارتی سامان کی قیمتوں میں اضافہ جو وہ افغانستان کو برآمد کیا جاتا ہے، نسلی اور مذہبی تنازعات کو ہوا دینا، اور یہاں تک کہ افغانستان میں مختلف متحارب گروہوں کی حمایت کرنا، مزید پانی حاصل کرنے کے لیے تہران کی طرف سے دباؤ ڈالے جانے کے لیے استعمال کیے جانے والے بنیادی طریقے ہیں۔"

پائیگیر نے کہا کہ "گزشتہ 40 سالوں میں افغانستان میں خانہ جنگیوں کا آغاز کر کے، ایران نے افغان معیشت کو ایک بہت بڑا دھچکا پہنچایا، ہمارے ملک کو غیر مستحکم کیا اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزید مفت پانی حاصل کرنے کے لیے لاکھوں افغانوں کو ہجرت پر مجبور کیا۔"

"لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اس سب کی قیمت ادا کریں۔"

کابل سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار عمر نحزت نے کہا کہ "بدقسمتی سے، افغانستان کے پڑوسی، خاص طور پر ایران، پوری تاریخ میں افغانوں کے اچھے ہمسایے نہیں رہے۔"

انہوں نے کہا کہ ایرانیوں نے ہمیشہ اپنے مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے افغانستان میں سیاسی، حفاظتی اور اقتصادی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

"ایک ایسے اسلامی ملک کے طور پر، جس کی زبان بھی مشترکہ ہے، افغان شہریوں کی مدد کرنے کے بجائے، ایرانی حالات کو مزید خراب کرنے اور اسے مزید پانی حاصل کرنے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500