سلامتی

ایران کو کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کرنے دینے کا امریکہ کا عہد

پاکستان فارورڈ

ایک بی-52 ایچ سٹریٹوفورٹریس رن وے پر احکامات کا منتظر ہے۔ [سینٹ کام]

ایک بی-52 ایچ سٹریٹوفورٹریس رن وے پر احکامات کا منتظر ہے۔ [سینٹ کام]

یروشلم — ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرتے دیکھنے سے انکار پر امریکہ مستحکم کھڑا ہے۔

گزشتہ جمعرات (14 جولائی) کو امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل اور سعودی عرب کا دورہ کیا، حکومتِ امریکہ نے ایران کو کبھی بھی ایک جوہری ملک بننے سے روکنے کے لیے 'اپنی قومی قوت کے تمام عناصر کو بروئے کار لانے“ کا عہد کیا ہے۔

وائیٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق، اس نے ”ایران کی جارحیت اور عدم استحکام کی سرگرمیوں، خواہ براہِ راست ہوں یا ذیلی جنگوں اور حزب اللہ جیسی دہشتگرد تنظیموں کے ذریعہ، کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے دیگر شرکاء کے ساتھ مل کر کام کرنے کے اپنے عزم کا بھی اعادہ کیا“۔

یہ اعلان گزشتہ ہفتے بائیڈن کے دو روزہ دورۂ یروشلم کے دوران امریکہ اور اسرائیل کے مابین طے پانے والے ایک مشترکہ اعلامیہ کے جزُ کے طور پر سامنے آیا۔

گزشتہ جمعہ کو بائیڈن کے وفد نے ایران کے مرکزی علاقائی حریف سعودی عرب کی جانب پرواز کی۔

جائنٹ کمپریہینسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) نامی ایران کے 2015 کے جوہری معاہدے پر مزاکرات تعطل کا شکار ہیں کیونکہ حکومتِ ایران خفیہ جوہری سرگرمیاں اور دیگر برملا خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

معاہدے کی جانب واپس آنے پر ایران پر عائد معاشی پابندیاں اٹھ جائیں گی، جس کے بدلے میں اسے جوہری سرگرمیوں پر عائد حدود پر مکمل عملدرآمد کرنا ہو گا۔

تاہم، حالیہ انکشافات کے مطابق، اپنی جوہری سرگرمیوں کو وسعت دے کر اور غیر قانونی مالیاتی سرگرمیوں میں ملوث ہو کر ایران معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہے۔

نیویارک ٹائمز نے 16 جون کو خبر دی کہ دوحہ میں جوہری معاہدے پر یورپی یونیئن (ای یو) کے ثالثوں کی جانب سے تسہیل شدہ مزاکرات سے قبل ایران ناتانز جوہری تنصیب سے جنوب کی جانب ایک وسیع سرنگ نکال رہا تھا۔

ماہرین نے اخبار کو بتایا کہ یہ اقدام ”پہاڑوں کے اندر اس قدر گہرائی میں جوہری تنصیبات تعمیر کرنے کے لیے تہران کی اب تک کی سب سے بڑی کوشش ہے کہ وہ بنکر شکن بموں اور سائیبر حملوں سے محفوظ رہیں۔“

17 جون کو رائیٹرز نے جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی ایک دستاویز کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ ایران اپنی زیرِ زمین فروڈو تنصیب میں جدید آئی آر 6 سنٹریفیوگ کے استعمال سے اپنی یورینیئم کی افزودگی میں مزید اضافہ کر رہا ہے، جو کہ نسبتاً زیادہ آسانی سے افزودگی سی سطوحات میں ردّوبدل کر سکتا ہے۔

2015 کا یہ معاہدہ فروڈو میں یورینئم کی افزودگی کی اجازت نہیں دیتا۔

امریکہ کے ادارۂ امن (یو ایس آئی پی) نے بھی 7 جون کو آئی اے ای اے کی ایک لیک ہو جانے والی رپورٹ کا حوالہ دیا، ایران نے 2015 کے معاہدے میں اجازت دی گئی مقدار سے 18 گنا زیادہ افزودہ یورینیئم ذخیرہ کر رکھی ہے، انہوں نے اسے ”بے مثال“ قرار دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ بڑھتے ہوئے ذخیرہ کا مطلب ہے کہ ”ایران چند ہفتوں کے اندر ایک جوہری بم کے لیے کافی ایندھن اکٹھا کر سکتا ہے۔“

بائیڈن نے جمعرات کو یروشلم میں کہا کہ امریکہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے واشنگٹن کی جانب سے طے کی گئی شرائط پر اترنے کے لیے ایران کا غیر معینہ مدت تک کے لیے انتظار نہیں کرے گا۔

اے ایف پی نے خبر دی کہ جب یہ پوچھا گیا کہ امریکہ کب تک سفارتی کاوشیں کرتے رہنے کے لیے تیار ہے، تو بائیڈن نے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے معاہدے کی بحالی کے لیے شرائط طے کر لی ہیں اور ہم تہران کے جواب کا ”ہمیشہ کے لیے انتظار نہیں کریں گے۔“

بدھ کو اسرائیل کے چینل 12 سے نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں بائیڈن نے کہا کہ ایران ”ایک جوہری ہتھیار بنانے کے اس قدر قریب ہے جتنا پہلے کبھی نہ تھا“، انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ آخری حل ہوا تو ”ایران کو جوہری اسلحہ کے حصول سے روکنے کے لیے امریکہ طاقت کا استعمال کرے گا“۔

علاقائی مصالحت

15 ستمبر 2020 کو پہلی مرتبہ مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک نئے دور کی نقشہ گری کی گئی تھی، جب متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے معاہدوں پر دستخط کیے۔

ان معاہدوں کا مقصد خطے میں مزید استحکام لانا اور سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کا خطے میں رسوخ کم کرنا ہے۔

وال سٹریٹ جرنل (ڈبلیو ایس جے) نے گزشتہ جمعرات کو خبر دی کہ بائیڈن انتظامیہ فضائی دفاع کے ایک علاقائی اتحاد میں اسرائیل اور اس کے عرب ہمسایوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو ان ممالک کو ایران اور اس کے اتحادیوں سے درپیش خطرات کے خلاف تحفظ فراہم کر گا۔

اس اخبار نے بحرین کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے کہا کہ اسرائیل نے بحرین کو ڈرون اور ڈرون شکن نطام فروکت کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اس بے نام ذریعہ نے کہا کہ اسرائیل کی موساد اور شن بیٹ سیکیورٹی سروسز بحرین کے انٹیلی جنس افسران کو تربیت بھی فراہم کر رہی ہیں۔

اور اسرائیل نے پہلے ہی متحدہ عرب امارات کو براہِ راست مدد کی پیش کش کی ہے، جو کہ رواں برس کے اوائل میں یمن میں ایران کی پشت کے حامل حوثی عسکریت پسندوں کی جانب سے میزائل حملوں کا ہدف تھا۔

ڈبلیو ایس جے کے مطابق، تہران نے اپنے ممالک میں اسرائیل کو عسکری تنصیبات نصب کرنے کی اجازت دینے پر متحدہ عرب امارات اور بحرین پر حملوں کی دھمکی دی ہے۔

سعودی عرب بھی ایسے میزائل اور ڈرون حملوں کا شکار رہا ہے جن کا الزام ایران اور اسکے ضمنیوں پر لگایا گیا۔ ستمبر 2019 میں سعودی قومی تیل کمپنی آرمکو پر ایک ایرانی ڈرون حملے نے خطے میں بڑھتے ہوئے درون خطرات سے متعلق تنبیہ کے ایک احساس کو بڑھا دیا۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے درمیان حالات معمول پر لانے کے معاہدوں نے ان ممالک کو تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے عسکری تعلقات کو بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔

مارچ میں ان چار ممالک کے ساتھ ساتھ مصر اور متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ سفارتکاروں نے اسرائیل میں ایک سنگِ میل اجلاس مکمل کیا، جس میں انہوں نے تعاون میں اضافے کا عہد کیا۔

گزشتہ ماہ اسرائیل اور بحرین نے ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، جو کہ کسی خلیجی ملک کے ساتھ اس طرز کا پہلا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے میں انٹیلی جنس، خریداری اور مشترکہ تربیت شامل ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500