معیشت

بلوچستان کی کانوں میں فساد سے چینی سرمایہ کاری پر رنجشیں اجاگر

از عبدالغنی کاکڑ

فروری میں بلوچ عسکریت پسند۔ [بلوچ نیشنلسٹ آرمی]

فروری میں بلوچ عسکریت پسند۔ [بلوچ نیشنلسٹ آرمی]

کوئٹہ – بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری پر رنجشیں جاری رہنے پر، ترقیاتی منصوبوں پر مشتبہ بلوچ عسکریت پسند گروہوں کے حملوں میں گزشتہ ماہ سے تیزی آ گئی ہے۔.

14 جون کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے کوئٹہ کے قریب حبیب اللہ کول مائن سے چار مزدوروں کو اغوا کر لیا۔

خیبرپختونخوا اور پنجاب کے ہزاروں کوئلے کے کان کن بلوچستان میں کام کرتے ہیں۔

حبیب اللہ کول مائنز کے ایک سینیئر اہلکار عصمت اللہ نے کہا، "اغوا کی وجہ معلوم نہیں ہے، لیکن یوں لگتا ہے کہ اس واقعے میں ملوث وہی عسکریت پسند بلوچستان میں جاری ترقیاتی عمل کو اپنے مفادات کے خلاف تصور کر سکتے ہیں۔"

1 مئی کو کوئٹہ میں محنت کشوں کے عالمی دن کے موقع پر ٹریڈ یونین کے کارکن نعرے لگاتے ہوئے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

1 مئی کو کوئٹہ میں محنت کشوں کے عالمی دن کے موقع پر ٹریڈ یونین کے کارکن نعرے لگاتے ہوئے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

انہوں نے کہا، "صوبے میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کی وجہ سے بلوچستان کے کان کنی کے شعبے میں کام کرنے والے ہزاروں کارکنوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ عسکریت پسند صوبے کے دور دراز علاقوں میں آزادانہ نقل و حرکت کر رہے ہیں اور مزدوروں سےمطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ وہاں سے نکل جائیں۔

"ہم اپنے مغوی کارکنوں کی بحفاظت بازیابی کے لیے رابطے میں ہیں، لیکن ابھی تک ہمیں کسی پیش رفت کا نہیں بتایا گیا۔"

کوئٹہ میں مقیم ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار بلال احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "بدامنی پھیلانے کا بنیادی مقصد صوبے میں غیر یقینی صورتحال پیدا کرنا اور دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ یہاں سرمایہ کاری کے لیے حالات ٹھیک نہیں ہیں

انہوں نے مزید کہا، "عسکریت پسند گروہ صوبے کی فالٹ لائنوں اور پُرامن علاقوں میں فائدہ اٹھا رہے ہیں۔"

احمد نے کہا، "بلوچستان میں امن و امان کی بحالی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ کان کنی کے شعبے اور تعمیراتی کمپنیوں کے کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ ریاست مخالف گروہ چاہتے ہیں کہ یہ ہزاروں کارکن صوبہ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔

بیجنگ نے حالیہ برسوں میں اسلام آباد کے ساتھ کئی ارب ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے معاہدے کیے ہیں، جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے جزو کے طور پر ہیں، جو کہ چین کی متنازعہ بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو ہے، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے۔

لیکن معاہدوں نے مقامی باشندوں میں چینی اثر و رسوخ کے بارے میں تشویش اور کمپنیوں کے مزدوری کے طریقوں پر ناراضگی پیدا کردی ہے، خاص طور پر چینی شہریوں کو پاکستانی محنت کشوں سے زیادہ ادائیگی کرنا۔

بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ پر ناراضگی نے بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے کی ترغیب دی ہے، جس سے اس تشویش کو ہوا ملی ہے کہ مشترکہ گروہ خطے میں پُرتشدد سرگرمیوں میں اضافہ کرے گا۔

وسائل کی لُوٹ مار

مقامی حکام نے اسلام آباد پر بلوچستان حکومت کو غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ بات چیت میں شامل کرنے سے انکاری ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔.

سابق سینیٹر اور سینئر سیاسی رہنماء، نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا، "چینی کمپنیاں طویل عرصے سے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر بلوچستان کے وسائل کو لوٹتی رہی ہیں۔ ہم کسی غیر ملکی کمپنی کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ قبول نہیں کریں گے جس میں بلوچستان کی حقیقی قیادت شامل نہ ہو۔"

"دہائیوں سے، چینی کمپنیاں ہمارے وسائل کو لوٹتی رہی ہیں ۔۔۔ مگر حکومتِ بلوچستان اور خصوصاً عوام کو ان تمام معاملات میں نظر انداز کیا گیا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "جب تک زمینی حقائق کی بنیاد پر بلوچستان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے، یہاں کوئی بھی بیرونی سرمایہ کاری کسی کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتی۔"

نیشنل پارٹی کے صدر اور بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے کہا، "غیر ملکی کمپنیوں، خصوصاً چینی سرمایہ کاروں نے ابھی تک وہ وعدے پورے نہیں کیے جو معاہدوں پر دستخط کرنے کے دوران کیے گئے تھے۔"

انہوں نے کہا، "یہاں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کی طرف سے مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور متعلقہ علاقوں کی ترقی کے حوالے سے کیے گئے اعلانات بھی عمل درآمد نہ ہونے کے مترادف ہیں۔"

"بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے -- اگر ان وسائل پر ہونے والے معاہدوں میں صوبے کی قیادت شامل نہیں ہوتی تو پھر ہم اس حوالے سے حکومت کے فیصلوں کو کیسے قبول کر سکتے ہیں؟"

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد تیزی سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ معاہدے کر رہا ہے لیکن ان معاہدوں کے اثرات پر توجہ نہیں دے رہا۔

انہوں نے مزید کہا، "میرے دور میں بھی، مرکزی حکومت نے چینی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کے بارے میں اٹھائے گئے خدشات پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ اگر اٹھائے گئے خدشات پر توجہ دی گئی ہوتی تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500