سلامتی

دہشتگردوں کے حملوں کا مقصد افغانستان میں نسلی اور فرقہ ورانہ تقسیم کو بھڑکانا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

22 اپریل کو ضلع امام صاحب، صوبہ کندوز میں دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کا کندوز کے ایک ہسپتال میں علاج کیا جا رہا ہے۔ [اے ایف پی]

22 اپریل کو ضلع امام صاحب، صوبہ کندوز میں دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کا کندوز کے ایک ہسپتال میں علاج کیا جا رہا ہے۔ [اے ایف پی]

کابل – مشاہدین نے تنبیہ کی کہ افغانستان بھر میں حالیہ حملے جن میں سے چند کی ذمہ داری "دولتِ اسلامیہ" (داعش) نے قبول کی، ممکنہ طور پر افغانوں کے لیے تباہ کن نتائج کے حامل ہوں گے۔

داعش کی جانب سے مزارِ شریف میں ایک مہلک حملے کی ذمہ داری قبول کیے جانے کے ایک روز بعد، جمعہ (22 اپریل) کو ایک بم نے ضلع امام صاحب، صوبہ کندوز میں دورانِ نماز ایک سنّی صوفی مسجد کو اڑاتے ہوئے کم از کم 33 افراد کو جاںبحق اور 43 دیگر کو زخمی کر دیا۔

افغان حکام نے کہا کہ جاںبحق اور زخمی ہونے والوں میں بچے بھی شامل تھے۔

کسی نے کندوز میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول نہ کی، تاہم اس میں داعش کی جانب سے کیے جانے والے اسی طرز کے حملوں کے نشانات ملتے ہیں۔

ایک انٹیلی جنس عہدیدار نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی شرط پر کہا کہ کندوز کا دھماکہ ایک بم سے ہوا لیکن یہ امر غیر واضح ہے کہ اسے کیسے چلایا گیا۔

اے ایف پی کے ایک نمائندہ نے جمعہ کو نشانہ بنائی جانے والی مسجد، مولوی سکندر صوفی مسجد کی دیواروں میں بڑے سوراخ ہوئے دیکھے۔

مسجد کی ایک سمت تباہ ہو گئی۔

داعش جیسے شورشی گروہ صوفیوں سے شدید طور پر متنفر ہیں، جنہیں یہ بدعتی خیال کرتے ہیں۔

ایک دکاندار محمد عیسیٰ، جس نے متاثرین کو ڈسٹرکٹ ہسپتال لے جانے میں مدد کی، نے کہا، "مسجد کا منظر وحشت انگیز تھا۔ مسجد کے اندر تمام نمازی جاںبحق یا زخمی ہو گئے تھے۔"

ایک دیگر مقامی رہائشی نے کہا، "میں نے 20 سے 30 تک میتیں دیکھیں۔"

متاثرین کے اقارب اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کے لیے مقامی ہسپتال پہنچے۔

ایک شخص چلایا، "میرا بیٹا شہید ہو گیا"، جبکہ اپنے چار بچوں کے ہمراہ ایک عورت اپنے خاوند کو تلاش کر رہی تھی۔

ایک نرس نے فون پر اے ایف پی کو بتایا کہ 30 تا 40 مریض زخموں کے علاج کے لیے داخل کیے گئے۔

صوبائی ہسپتال میں ایک معالج نے اے ایف پی کو بتایا، "گولہ بارود سے ہونے والے زخم ۔۔۔ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کسی بم دھماکے سے پیش آئے"۔

فرقہ ورانہ تقسیم

کابل سے تعلق رکھنے والے امورِ سیاست کے ایک تجزیہ کار عمر نزہت نے کہا، "ایسے حملوں اور دھماکوں کا جاری رہنا اور ان میں اضافہ شدید اور خطرناک نتائج کا حامل ہو گا اور افغانستان کو ماضی کی نسبت زیادہ غیرمحفوظ اور غیر مستحکم بنا دے گا۔"

"افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد، بدقسمتی سے متعدد دہشتگرد گروہوں بطورِ خاص داعش کی جانب سے بھرتیوں میں اضافہ ہوا ہے ۔"

نزہت نے کہا، "مزارِ شریف مسجد اور صوبہ کندوز میں حملے ملک میں داعش کی موجودگی میں اضافہ کی مثالیں ہیں۔"

"ایسے حملے ملک کو خانہ جنگی اور یہاں تک کہ انتشار کی جانب لے جائیں گے۔"

کابل میں امورِ سیاسی ہی کے ایک دیگر تجزیہ کار مقسود حسن زادہ نے کہا کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا، "یہ امر نہایت واضح ہے کہ اس قسم کے حملے اور دھماکے افغانستان کے لیے جاگ اٹھنے کی ایک تنبیہہ ہیں۔ یہ ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں عدم سلامتی پھیلا دیں گے جو غربت میں اضافہ کا بھی باعث بنے گی۔"

انہوں نے کہا، "اگر سلامتی کی صورتِ حال اسی طور سے جاری رہتی ہے اور ایسے دھماکے ہوتے رہے تو دیگر دہشتگرد اور شدت پسند گروہوں کے ساتھ ساتھ نسلی اور مذہبی تناؤ کی افزائش کے لیے افغانستان میں راہ ہموار ہو جائے گی۔"

حسن زادہ نے کہا، "شعیوں کو منظم طور پر ہدف بنایا جانا نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جاتا ہے اور کندوز میں سنّی مسجد پر حملہ ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان کے دشمن افغانوں کے مابین نسلی اور مذہبی تفرقات کو گہرا کرنا چاہتے ہیں۔"

کابل کے 23 سالہ رہائشی محمّد ہجرت نے کہا کہ افغانستان کے دشمن افغانستان میں نسلی اور فرقہ ورانہ جنگیں شروع کرانے کے لیے مخصوص نسلی گروہوں اور فرقوں کو ہدف بنا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے تباہ کن مقاصد حاصل کر سکیں۔

ہجرت نے کہا، "طلبہ، نمازیوں اور شہریوں کو قتل کرنے کی کسی بھی مذہب میں اجازت نہیں، اور ہم افغان اس کی مذمت کرتے ہیں۔ داعش یا کوئی بھی ایسا دیگر گروہ جو معصوم شہریوں کی زندگیوں کو تباہ کرتا ہے تہ تو مسلمان ہے اور نہ افغان۔"

[کابل سے حمزہ نے اس رپورٹ میں کردار ادا کیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500