سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے بروز منگل (11 جولائی) کو آسٹریلوی قانون سازوں کو بتایا کہ چین سے انجام دیئے جانے والے جعلی فیس بک اکاؤنٹس کے نیٹ ورک "بڑھتے" جا رہے ہیں اور ملک سے باہر تنازعات پیدا کرنے کے لیے نئی شاطرانہ چال چل رہے ہیں۔
میٹا کی اصل (پیرنٹ) کمپنی کے حُکّام نے غیر ملکی مداخلت کے بارے میں سینیٹ (Senate) کی انکوائری کو بتایا کہ گزشتہ سات مہینوں میں چین میں قائم نیٹ ورکس کی طرف سے "ہتھکنڈوں میں نمایاں تبدیلی" رُونُما ہوئی ہے۔
میٹا کے ترجمان جوش مَچِن کا کہنا ہے کہ چینی فیس بک اکاؤنٹس کے مربوط نیٹ ورک صحافیوں، خیراتی اداروں اور تعلقات عامہ کی کمپنیوں کو نشانہ بنا کر تیزی سے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
"ہم ہتھکنڈوں کی ایک نئی رینج کو بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں،" مَچِن نے تحقیق میں کہا۔
میٹا نے حال ہی میں چین میں قائم ایک نیٹ ورک سے منسلک درجنوں فیس بک اکاؤنٹس کو ہٹا دیا ہے جو یورپ میں ایک مربوط غلط معلومات پھیلانے والی مہم چلا رہے تھے۔
مئی میں ہٹایا گیا (ٹیک ڈاؤن)
ان نیٹ ورکس کی ابتدا چین سے ہوئی اور اس نے امریکہ، یورپ، ہندوستان، تبت، تائیوان، افریقی صحرائے اعظم کے جنوبی علاقے، جاپان، وسطی ایشیا، اور دنیا بھر میں ایغور کمیونٹی سمیت کئی علاقوں میں سوشل میڈیا صارفین کو نشانہ بنایا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ "حالیہ کارروائیوں میں مغرب میں ایک میڈیا فرنٹ کمپنی قائم کرنا، دنیا بھر سے فری لانس مصنفین کی خدمات حاصل کرنا، مظاہرین کی خدمات حاصل کرنا اور افریقہ میں ایک این جی او کے ساتھ کام کرنا شامل ہے۔"
ٹویٹر پر، نیو یورپ آبزرویشن نامی میٹا رپورٹ میں ذکر کردہ ایک اکاؤنٹ نے یورپ جانے والے تارکین وطن اور نَسوانی ہَم جِنس پَرَستوں، ہم جنس پرست (گے)، دو جنسی کشش رکھنے والے، اور ٹرانس جینڈر (LGBT) کارکنوں پر حملہ کرنے والے اشتعال انگیز مواد کا اشتراک کیا۔
گروپ کی طرف سے گزشتہ اگست میں کی گئی ایک ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ وہ ہنگری میں ارب پتی انسان دوست مزاج جارج سوروس کے خلاف مظاہروں میں حصہ لینے کے لیے "پارٹ ٹائم" لوگوں کی خدمات حاصل کر رہا ہے، جو ایک سَرمايَہ کار ہے اور جو اکثر و بیشتر دائیں بازو کے سازشی نظریات کا ہدف بنتا رہتا ہے۔
اس کی کچھ ٹویٹر پوسٹس میں دائیں بازو کے اکاؤنٹس سے وائرل ٹویٹس کا استعمال کیا گیا۔
گزشتہ چند سالوں کے دوران، بیجنگ نے 10 لاکھ سے زائد ایغوروں اور دیگر زیادہ تر مسلمان اور ترک زبان بولنے والے مغربی شنجیانگ کے دور دراز علاقوں کے باشندوں کو حراستی مراکز اور جیلوں کے خفیہ نیٹ ورک میں حراست میں رکھا ہے۔
ان الزامات میں بڑے پیمانے پر قید، جبری مشقت، جبری نس بندی، منظم عصمت دری، اور ایغوروں کے ثقافتی اور اسلامی مقامات کی تباہی شامل ہیں۔