سلامتی

روس پر ایک چال: بیجنگ کھلے عام وسط ایشیا میں راستے بنا رہا ہے

کانات التینباییف

(بائیں سے دائیں) چینی صدر ژی جن پنگ، قازق صدر قاسئیم-جومارت توکاییف، قرغیز صدر صادئیر جاپاروف، ازبک صدر شوکت مرزییوژیف، تاجک صدر امام علی رحمٰن اور ترکمان صدر سردار بردی محمدوف 19 مئی کو ژیان، چین میں چین-وسط ایشیا اجلاس میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ [فلورنس لو/پول/اے ایف پی]

(بائیں سے دائیں) چینی صدر ژی جن پنگ، قازق صدر قاسئیم-جومارت توکاییف، قرغیز صدر صادئیر جاپاروف، ازبک صدر شوکت مرزییوژیف، تاجک صدر امام علی رحمٰن اور ترکمان صدر سردار بردی محمدوف 19 مئی کو ژیان، چین میں چین-وسط ایشیا اجلاس میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ [فلورنس لو/پول/اے ایف پی]

التمے/تاشقند – اگر کبھی وسط ایشیا میں چین اور روس کے مابین رسوخ کی خاموش تقسیم تھی – جس میں بیجنگ معیشت کے لیے مالیات فراہم کرنے اور ماسکو سیکیورٹی کا ذمہ دار تھا – تو اب چیزیں بھاری پیمانے پر چین کے حق میں منقل ہو چکی ہیں۔

یوکرین پر حملے میں ناکامی کے بعد، کریملن خطے میں اپنا رسوخ کھو رہا ہے، جبکہ چین خلا کو پر کرنے کے لیے تیار ہے۔

روس نے فروری 2022 میں یوکرین پر بلا اشتعال حملہ کر دیا۔ تب سے حملہ آور کو متعدد شکستوں اور شدید جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

تجزیہ کاورں کا کہنا ہے کہ بدلے میں چین نے اپنے روسی اتحادی کے ”عقبی صحن“ میں داخل ہوتے ہوئے خطے کو بیرونی جارحیت، جو خود روس کی جانب سے ہے، سے تحفظ فراہم کرنے کی مؤثر طور پر ذمہ داری لے لی ہے۔

18 مئی کو ژیان، چین میں چین-وسط ایشیا اجلاس کے حواشی میں دستخط کی ایک تقریب کے دوران چینی صدر ژی جن پنگ (دائیں) اور ازبک صدر شوکت مرزایوییف ہاتھ ملا رہے ہیں۔[مارک کرسٹینو/پول/اے ایف پی]

18 مئی کو ژیان، چین میں چین-وسط ایشیا اجلاس کے حواشی میں دستخط کی ایک تقریب کے دوران چینی صدر ژی جن پنگ (دائیں) اور ازبک صدر شوکت مرزایوییف ہاتھ ملا رہے ہیں۔[مارک کرسٹینو/پول/اے ایف پی]

یہ رجحان 18-19 مئی کو چین میں منعقدہ چین-وسطی ایشیا سربراہی اجلاس سے روس کی غیر موجودگی میں واضح ہوا۔

قازقستان، قرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے صدور نے اس اجلاس میں شرکت کی۔ چینیوں نے شاہراہِ ریشم پر ایک شہر ژیان میں اس علاقائی تقریب کو منعقد کر کے اسے اشاریئت میں ضم کرنے کی کوشش کی۔

چین کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ 31 برس قبل تمام وسط ایشیائی ریاستوں سے تعلقات استوار کرنے کے بعد سے اب تک یہ اپنی طرز کا پہلا اجلاس تھا۔ یہ بیجنگ اور وسط ایشیائی ممالک کے رہنماؤں کے مابین اس طرز پر آمنے سامنے ہونے والا پہلا اجلاس تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تقریب سے روس کی غیر حاضری خطے میں ماسکو کے نمایاں طور سے کم کردار کی غمّاز ہے، اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اپنے ”دوست اور اتحادی“ کو طویل عرصے سے روس کے اپنے علاقۂ رسوخ سے باہر دھکیل رہا ہے۔

سویڈن میں اپسالا یونیورسٹی میں روسی اور مشرقی یورپی علوم کے پروفیسر سٹیفن ہیڈلنڈ نے 19 مئی کو یورونیز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”یہ پہلی مرتبہ ہے کہ روس، جو چند صدیوں سے نہیں تو کئی دہائیوں سے وسط ایشیا میں غلبہ رکھتا ہے، شامل نہیں کیا گیا۔“

انہوں نے مزید کہا، ”یہ خطے میں روس کے اپنے دوست کھو دینے اور چین کے نئے غالب بننے کے موقع پر جھپٹ پڑنے کے بعد سامنے آٰیا۔“

لندن اساسی تنظیم سنٹرل ایشیا ڈیو ڈیلیجنس کے ڈائریکٹر علی شیر الخاموف نے کہا، ”دو وجوہات کی بنا پر ژیان مین 'بگ سِکس' کے اجلاس کو ایک سنگِ میل کہا جا سکتا ہے۔“

انہوں نے کاروان سرائے سے بات کرتے ہوئے کہا، ”پہلے یہ کہ پہلی مرتبہ روس کی شراکت کے بغیر وسط ایشیا اور چین کے رہنماؤں کو اکٹھا کرنے والا علاقائی اجلاس منعقد ہوا۔ یہ کافی نمایاں اور علامتی ہے،“

انہوں نے کہا، ”قبل ازاں یہ ماسکو کو ہضم نہ ہوتا، تاہم اب بیجنگ سے تعلقات خراب نہ کرنے کے لیے اسے اس بات کو نگلنا پڑے گا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن کی عدم موجودگی ایک جغرافیائی سیای اور علاقائی کھلاڑی کے طور پر روس کی کمزوری کی واضح علامت ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسرے اس اجلاس میں کل قریباً 50 بلین ڈالر مالیت کے سرمایہ کاری کے معاہدوں کے ”بے مثال“ پیکج پر دستخط ہوئے، جس میں سے نصف 15 انٹرپرائزز کی تشکیل کے لیے ازبکستان کو گیا۔

انہوں نے کہا، ”چین اس قدر نیک خو کیوں ہو رہا ہے؟ میرے خیال میں ہدف وسط ایشیا کو جغرافیائی سیاسی طور پر ضبط کر لینا ہے، نہ صرف روس بلکہ دیگر مغرب سے بھی۔“

انہوں نے مزید کہا کہ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وسط ایشیائی ممالک ”فوری طور پر اپنی کثیر جہتی حکمتِ عملی کو ترک کر دیں گے“۔

چینی خصوصیات کے ساتھ مالی 'معاونت'۔

اس اجلاس نے، نہ صرف اپنے روایتی حلقہ اور معیشت، بلکہ دیگر شعبہ جات، مثلاً فوج اور یہاں تک کہ انفارمیشن (یا پراپیگنڈا) معاونت، جو کئی دہائیوں سے روس کی مہارت رہی ہے، میں بھی اپنا رسوخ پھیلانے کی بیجنگ کی خواہش کا انکشاف کر دیا۔

اجلاس میں چینی صدر ژی جن پنگ نے اپنی آراء میں وسط ایشیا کے ساتھ اپنے ملک کے مراسم کے ”ایک نئے دور“ کا اعلان کیا۔

لیکن چونکہ چین اپنے برآمدی مواقع میں تنوع پیدا کرنے اور یورپ کو سامان کی رسد فراہم کرنے کے لیے زمینی راستے پیدا کرنے کے لیے اپنے دور رس منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے خطے پر منحصر ہے، لہٰذا معیشت ایک ترجیح رہی ہے۔

اجلاس میں فریقین نے چین-قرغیزستان-ازبکستان ریلوے اور شاہراہ کی تعمیر مکمل کرنے پر اتفاق کیا، جو کہ روس کو بائی پاس کرے گی۔

ژی نے خطے میں ”تعاون اور ترقی کو تحریک“ دینے کی غرض سے وسط ایشیائی ممالک کے لیے قرض اور گرانٹس کی مد میں اضافی 26 بلین چینی یین (3.8 بلین ڈالر) کا وعدہ کیا۔

مشاہدین چینی وعدوں کو نظرِ لطیف سے نہیں دیکھتے

بشکک سے ایک معاشیات دان المیرا سورانچے ییف نے کاروانسرائے سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اصل میں چین کی جانب سے ایسی خیرخواہانہ معاونت چین کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں، جیسا کہ شاہراہوں اور ریلویز کو مالیات فراہم کرتی ہے، جو بالآخر بیجنگ کے وسیع بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) میں کردار ادا کرتی ہے۔“

انہوں نے کہا، ”]چین[ کی جانب سے مختص شدہ پیسہ چینی کمپنیوں کی جیبوں میں جاتا ہے جو ان سڑکوں کو تعمیر کرتی ہیں۔“

وسط ایشیا چین کے ٹرلین ڈالر بی آر آئی، ژی کے لیے فیصلہ کن جغرافیائی سیاسی منصوبہ، جو ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) کے نام سے بھی معروف ہے ، کے لیے ایک چابی بن چکی ہے۔

ناقدین طویل عرصہ سے چین پر ایسے بڑے قرضے دے کر کم آمدنی والے ممالک کو قرضوں کے چنگل میں پھنسانے کے لیے لالچ دینے کا الزام لگا رہے ہیں جن کی وہ استطاعت نہیں رکھتے۔ دیگر کا کہنا ہے کہ بی آر آئی دنیا بھر میں چین کی پھیلتی ہوئی عسکری موجودگی کے لیے ایک آڑ کا کام کرتی ہے۔

ژی نے اجلاس میں یہ وعدہ بھی کیا کہ وسط ایشیا میں کام کرنے والی چینی کمپنیاں ”مقامی آبادی کے لیے مزید ملازمتیں پیدا کرنے کو فروغ دیں گی۔“

سورانچی ییفا نے اس قسم کے دَین کو ”مالک کی میز سے گرنے والے روٹی کے ٹکڑے“ قرار دیا، جس سے متعلق بیجنگ کو امید ہے کہ وہ ان سے مقامی باشندوں کو جیت لے گا تا کہ وہ اپنے شہروں اور دیہات میں چینی کمپنیوں کی سرگرمیوں پر احتجاج نہ کریں۔

کئی برسوں سے قرغیز دیہات کے باشندے اپنے مقامی ماحول کو بچانے کی کوشش میں اپنی پہاڑی، قدرتی مناظر سے بھرپور زمین پر چینی کمپنیوں کی کان کنی کی سرگرمیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”چین سے ایسے بڑے قرض قبول کرنے سے ہمارے خطے میں ممالک قرضوں کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور مجبوراً اپنے قیمتی زیرِ زمین وسائل سے واپس کرتے ہیں، جیسا کہ مثال کے طور پر تاجکستان کے ساتھ ہوا۔“

مثال کے طور پر تاجکستان نے 2019 میں متناعہ طور پر چین کو چاندی کے ایک کان کے حقوق سے نواز دیا۔

چین بطورِ ضامنِ سلامتی؟

بیجنگ نے خطے میں سلامتی برقرار رکھنے میں مدد کا بھی وعدہ کیا، جو روایتی علاقائی ”محافظ“ روس کے لیے ایک نمایاں حزیمت ہے۔

ژی نے ژیان میں 19 مئی کو اجلاس کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا، ”چین اور وسط ایشیائی ممالک خودمختاری، آزادی، سلامتی اور علاقائی سالمیت جیسے اپنے بنیادی مفادات میں ایک دوسرے کی بھرپور حمایت کریں گے۔“

جیسا کہ ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی (آر ایف ای/آر ایل) کی قازق سروس نے حوالہ دیا، بیجنگ نے قبل ازاں کہا تھا کہ وہ وسط ایشیائی سیکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کے لیے ایک علاقائی انسدادِ دہشتگردی مرکز تشکیل دینے پر کام کر رہا ہے۔

ژی نے وسط ایشیا میں اپنے سیکیورٹی عزائم سے متعلق ستمبر میں آستانہ کے دورہ کے دوران اپنا پہلا بڑا بیان دیا، جب انہوں نے اپنے قازق ہم منصب قاسئیم-جومارت توکاییف سے ”قازقستان کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع میں اس کی بھرپور حمایت“ کا عہد کیا۔

تجزیہ کار اسے بیجنگ کی جانب سے ماسکو کو ایک سخت تنبیہ کے طور پر دیکھتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے کریملن یوکرین میں خودساختہ دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، یہ اس کے لیے ایک ناپسندیدہ پیشرفت ہے۔

ایک التمے اساسی سیاسیات دان اور رسک اسسمنٹ گروپ کے ڈائریکٹر دوسئیم ستاپاییف نے کہا کہ یوکرین میں عسکری ناکامی کے دوان وسط ایشیا میں سلامتی کے ضامن کے طور پر ماسکو کی ساکھ نمایاں طور پر کم ہوئی ہے۔

انہوں نے روس کی جانب سے تشکیل دی گئی اور روس کے زیرِ رسوخ ایک تنظیم کا حوالہ دیتے ہوئے کاروان سرائے کو بتایا، ”مزید برآں سی ایس ٹی او[کلکٹیو سیکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن] کے ارکان اس عسکری بلاک سے ناخوش ہیں۔“

ستاپاییف نے کہا، ”خود روس سمیت ان میں سے اکثر متعدد عسکری تنازعات میں چلے گئے، اور ان کی رکنیت۔۔۔ ان تنازعات کے حل میں ان کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوئی۔“

سی ایس ٹی او میں سابق سوویت جمہوریہ جات، بشمول تین وسط ایشیائی ریاستیں – قازقستان، قرغیزستان اور تاجکستان شامل ہیں۔

کارنیج رشیا یورایشیا سنٹر کے ایک فیلو تیمور عمروف نے سائیبیریا ریالائی نیوز آؤٹ لیٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں حوالہ دیا کہ بیجنگ حالیہ صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے سابقہ سوویت ممالک کو روس کے حلقہ سے نکال کر چین کے حلقہ میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے داخلی بدامنی کے خاتمہ کے لیے مخصوص طور پر تعینات افواج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”چین جلد ہی چین کے داخلی فوجیوں کی شرکت سمیت وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مشترکہ عسکری مشقیں دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔“

چینی روسی پراپیگنڈا

بظاہر بیجنگ نے وسط ایشیا میں اپنی ”نرم طاقت“ کا فعال استعمال شروع کر دیا ہے، یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں روس نے اب تک کریملن کے زیرِ انتظام ٹی وی چینلز اور نیوز ویب سائیٹس جیسی پراپیگنڈا آؤٹ لیٹس کے ذریعے کہیں زیادہ رسوخ رکھا ہے۔

چین کی میڈیا کارپوریشن سی سی ٹی وی پلس اور نیوس سائٹ بزنس قازقستان نے بین الاقوامی نیوز ایجنسی ڈی کے نیوز ڈاٹ کے زیڈ کے ساتھ مل کر مارچ میں ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔

سی سی ٹی وی پلس، جس کا مبینہ مشن ”دیگر دنیا کو چین کے بارے میں بتانا“ ہے، بزنس قازقستان کو نشرواشاعت کے لیے اپنا مواد فراہم کرے گا۔

بیجنگ وسط ایشیائی میڈیا آؤٹ لیٹس کے ساتھ معاونت کو چین کا مثبت تصور اور ”مجموعی طور پر مغرب“ کا منفی تصور پیدا کرنے کے لیے، اور بیجنگ کے دیگر پیغاماتی ایجنڈا کی پیروی کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ساتپاییف نے وسط ایشیائی ممالک کو چین کے وسعت شدہ رسوخ کے تحت آنے سے بچنے کے لیے اپنے قومی مفادات میں خود کام کرنے کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں چین کی ”نرم طاقت“ میں صرف اضافہ ہی ہو گا۔

سویڈن میں رہنے والے ایک ازبک سیاستدان پولت اخونوف نے کہا، ”چین وسط ایشیا میں کوئی اچھی چیز نہیں لائے گا۔ صرف نوآبادی اور ہمارے خطے کی غلامی،“

انہوں نے کہا، بیجنگ ”مزید بدعنوانی اور اشرافیہ کے مابین محرومی کو تقویت دے گا، لہٰذا اس سے خطے میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہو گی اور چین پر انحصار میں اضافہ ہو گا۔“

سویڈش پروفیسر ہیڈلنڈ کے مطابق، روس ایک بے کس مشاہد تک محدود ہو گیا ہے جبکہ چین وسط ایشیا کی کھال اتار رہا ہے۔

ہیڈلنڈ نے یورونیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”چینی احسان نہیں کرتے، اگر روس نے کبھی یہ خیال کیا تھا کہ چین بدلے میں زیادہ لیے بغیر ان کے لیے کچھ کرے گا تو اب انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ وہ غلط تھے۔“

[ازبکستان سے رستم تیمورف نے اس رپورٹ میں کردار ادا کیا]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500