پناہ گزین

افغان مہاجرین کو پاکستان میں معاشی، تعلیمی اور رہائش کے مسائل کا سامنا

از احسان اللہ

افغان باشندے 2 فروری کو صوبہ ننگرہار میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان طورخم بارڈر کراسنگ پر پاکستان سے آنے کے بعد اپنا سامان لے کر باڑ والی راہداری کے اندر ایک راستے پر چلتے ہوئے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

افغان باشندے 2 فروری کو صوبہ ننگرہار میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان طورخم بارڈر کراسنگ پر پاکستان سے آنے کے بعد اپنا سامان لے کر باڑ والی راہداری کے اندر ایک راستے پر چلتے ہوئے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

کابل -- اگست 2021 سے پاکستان ہجرت کرنے والے بہت سے افغان اپنے اختیاری ملک میں مسلسل مشکلات اور گرتے ہوئے معیارِ زندگی کی خبر دے رہے ہیں۔

حکومتِ پاکستان کے مطابق پاکستان میں تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین مقیم ہیں۔

34 سالہ حبیب اللہ زلمی، جو تقریباً ایک سال سے پشاور میں مقیم ہیں، نے افغانستان چھوڑنے کی بڑی وجہ بیروزگاری اور معاشی مسائل بتائی۔

انہوں نے کہا، " کام کے مواقع دن بدن کم ہو رہے تھے... اور ہمیں پاکستان ہجرت کرنی پڑی"۔

افغان مہاجرین 6 ستمبر 2021 کو پاکستان کے شہر کوئٹہ کے مضافات میں عارضی خیموں کی پناہ گاہوں کے گرد جمع ہیں۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

افغان مہاجرین 6 ستمبر 2021 کو پاکستان کے شہر کوئٹہ کے مضافات میں عارضی خیموں کی پناہ گاہوں کے گرد جمع ہیں۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

زلمی اگست 2021 تک افغانستان میں ایک تعمیراتی کمپنی کے لیے انتظامی ملازمت کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا، "میں جس کمپنی میں کام کر رہا تھا وہ بند ہونے کے بعد سے تعمیراتی کام میں نمایاں کمی آئی ہے"۔ اس کے بعد انہوں نے کرنسی ایکسچینج میں کام کرنا شروع کر دیا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس کام میں ان کا مالی نقصان ہوا۔

انہیں پاکستان میں ایک اور ملازمت مل گئی ہے۔

خالد نامی ایک افغان صحافی، جنہوں نے اپنا عرفی نام استعمال کرنے کی درخواست کی، نے کہا کہ انہوں نے سنہ 2021 کے آخر میں افغانستان چھوڑا تھا اور اب وہ اپنے خاندان کے ساتھ راولپنڈی میں مقیم ہیں۔

انہوں نے کہا، "میں نے سیکیورٹی خطرات اور میڈیا کے کام پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کی وجہ سے افغانستان چھوڑا تھا،" انہوں نے مزید کہا کہ اب ان کے پاس روزگار کے بہت کم مواقع ہیں۔

انہوں نے کہا، "پاکستان میں افغان صحافیوں کے لیے میڈیا کا کوئی کام نہیں ہے۔ زیادہ تر صحافی یا تو یہاں بیروزگار ہیں یا بہت کم اجرت پر محنت مزدوری کرتے ہیں"۔

خالد نے کہا، "روزمرہ کے اخراجات اور بیروزگاری دیگر بڑی مشکلات ہیں جن کا مجھے اور دیگر افغان مہاجرین کو سامنا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا، "میں کبھی کبھی محنت مزدوری کرکے، یا اپنے دوستوں سے پیسے ادھار لے کر اپنے اخراجات پورے کرتا ہوں"۔

انسانی حقوق کی ایک افغان کارکن، فرشتہ رامین، جو اب اسلام آباد کے ایک مضافاتی علاقے میں مقیم ہیں، نے کہا کہ وہ سلامتی کے خطرات اور خواتین کے کام اور تعلیم پر سخت پابندیوں کے باعث افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور ہوئیں۔

"مہاجرین کی آباد کاری میں مسائل اور غیر یقینی صورتحال، خراب معاشی صورتحال، افغانوں کو کام کرنے اور روزی کمانے کی اجازت دینے کے لیے پناہ گزینوں کی ایجنسیوں کی جانب سے معاون دستاویزات کی کمی، مفت تعلیم اور معاش کی ضروریات جیسے رہائش، خوراک اور صحت کی خدمات تک رسائی کا فقدان پاکستان میں افغان مہاجرین کو درپیش چند اہم مسائل ہیں۔

ویزے کی مشکلات

پاکستان میں افغان مہاجرین کے لیے ویزوں میں توسیع کے مسائل ایک اور مسئلہ ہیں۔

رامین نے کہا، "حقیقت یہ ہے کہ افغان مہاجرین کے پاس مستقل رہائشی حیثیت نہیں ہے اور ان کے ویزوں میں توسیع نہیں کی جاتی ، یہ ایک اور دشواری ہے جس کا وہ سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں ویزے میں تین ماہ کی توسیع کے لیے بھاری رقم ادا کرنی پڑتی ہے"۔

انہوں نے مزید کہا، "اگر وہ مقررہ مدت سے زیادہ قیام کرتے ہیں، تو جب بھی وہ پاکستان سے جاتے ہیں یا واپس آتے ہیں، تو انہیں دوبارہ سفر کرنے کی اجازت دینے کے لیے بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے"۔

رامین نے کہا کہ یہ مسائل کچھ افغان مہاجرین میں ذہنی اضطراب کا باعث بنے ہیں۔

ایک مغربی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے، انوری نے کہا کہ ان کے امیگریشن کیس پر پیش رفت بہت سست ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ہمارے لیے زندہ رہنے کا کوئی موقع نہیں تھا اور ہمیں ملک چھوڑ کر سیاسی پناہ کی درخواست دینا پڑی۔ "لیکن پاکستان میں طویل انتظار نے میرے بچوں کو تعلیم سے محروم کر دیا ہے"۔

انوری نے کہا کہ ان کے ویزے کی میعاد ختم ہونے والی ہے اور وہ اس بارے میں فکر مند ہیں کہ آیا حکومتِ پاکستان ان کے اور ان کے اہلِ خانہ کے ویزوں میں توسیع کرے گی یا نہیں۔

انہوں نے کہا، "بدقسمتی سے پاکستان میں قیام کی مدت میں توسیع ہمارے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور ہمیں اپنے ویزوں کی تجدید میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے"۔

"بعض اوقات ہمیں ویزا سہولت کاروں کو بھاری رقم ادا کرنی پڑتی ہے، جو ہماری استطاعت نہیں ہے"۔

47 سالہ غلام مرتضیٰ حبیبی سنہ 2022 میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔

انہوں نے کہا، "میں افغانستان میں تعلیم کے شعبے میں ایک غیر سرکاری تنظیم [این جی او] کے لیے کام کر رہا تھا، لیکن اگست 2021 کے بعد، جب این جی او کا بجٹ کم ہو گیا تو میں اپنی ملازمت سے محروم ہو گیا"۔

انہوں نے کہا، "بیروزگاری کی وجہ سے، میں ایک سال سے زیادہ عرصہ قبل اپنے خاندان کے ساتھ، پشاور، پاکستان آ گیا۔ میں بیروزگار ہوں، لیکن میرا بیٹا، جس کی عمر 17 ہے، فروٹ منڈی میں کام کرتا ہے"۔

حبیبی نے کہا، لیکن مہنگائی اور پاکستان میں رہنے کے لیے مہنگے اخراجات کی وجہ سے خاندان مشکل سے اپنا پیٹ پال سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، "جب سے ہم پاکستان منتقل ہوئے ہیں، صرف ایک چیز کے متعلق ہم سوچ سکتے ہیں وہ اپنے خاندان کے لیے کھانا تلاش کرنا ہے، اور بدقسمتی سے میرا بیٹا ... اور میری دو بیٹیاں، جن کی عمریں 14 اور 13 سال ہیں، تعلیم سے محروم ہیں"۔

حبیبی کی بیٹیاں افغانستان میں سکول نہیں جا سکتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ان کے پاس مناسب دستاویزات نہیں ہیں، اس لیے ہو سکتا ہے وہ پاکستان میں بھی تعلیم حاصل نہ کر سکیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500