جرم و انصاف

ایران کی طرف سے فوجی کھیپ کو 'زلزلہ امداد' کے طور پر چھپانے پر شام میں غصہ

از ولید ابو الخیر

ایک مہلک زلزلے کے بعد، 8 فروری کو شام کے شمالی شہر حلب کے ہوائی اڈے پر کارکن، ایران کی طرف سے بھیجی گئی امداد کو جہاز سے اتار رہے ہیں۔ رائٹرز کی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امداد کی آڑ میں ہتھیار لائے گئے ہیں۔ [اے ایف پی]

ایک مہلک زلزلے کے بعد، 8 فروری کو شام کے شمالی شہر حلب کے ہوائی اڈے پر کارکن، ایران کی طرف سے بھیجی گئی امداد کو جہاز سے اتار رہے ہیں۔ رائٹرز کی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امداد کی آڑ میں ہتھیار لائے گئے ہیں۔ [اے ایف پی]

ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فروری کے مہلک زلزلے کے بعد، جیسے ہی عالمی برادری شامی عوام کے لیے امداد بھیجنے کے لیے جمع ہوئی، ایران نے اس تباہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی سازوسامان اور ہتھیاروں کی کھیپ کو ہوائی راستے سے پہنچایا۔

ایسے وقت میں جب کہ دیگر ممالک 11 سال سے جاری جنگ سے متاثرہ لوگوں کے مصائب کو کم کرنے کے لیے خوراک اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کر رہے تھے، ایران کے اس قدم نے شام کی آبادی میں غم و غصے کو جنم دیا، جو اسے طاقت کا ایک گھٹیا کھیل سمجھ رہے ہیں۔

رائٹرز نے 12 اپریل کو شائع ہونے والی ایک خصوصی رپورٹ میں کہا کہ زلزلے کے بعد، ایران سے فوجی سازوسامان اور ہتھیاروں سے لدی سینکڑوں کھیپیں حلب، دمشق اور اللاذقیہ کے ہوائی اڈوں کی طرف روانہ کی گئی ہیں۔

شام، ایران، اسرائیل اور مغرب سے تعلق رکھنے والے نو ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ پروازیں سات ہفتوں تک جاری رہیں اور ٹرکوں کے قافلے، ان ہتھیاروں اور سامان کو ملک کے دیگر مقامات پر لے جا رہے تھے۔

حزب اللہ کے زیرِ اختیار کام کرنے والے میڈیا آؤٹ لیٹ کی اس تصویر میں 9 فروری کو دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر، ایرانی طیارے امداد اتارنے کی تیاری کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ رائٹرز کی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امداد کی آڑ میں ہتھیار لائے گئے ہیں۔ [المنار]

حزب اللہ کے زیرِ اختیار کام کرنے والے میڈیا آؤٹ لیٹ کی اس تصویر میں 9 فروری کو دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر، ایرانی طیارے امداد اتارنے کی تیاری کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ رائٹرز کی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امداد کی آڑ میں ہتھیار لائے گئے ہیں۔ [المنار]

شام کے زلزلہ متاثرین کے لیے ایرانی امداد کی کھیپیں، جو یہاں 7 فروری کو ایرانی ریاست کے زیرِ اختیار کام کرنے والے ذرائع ابلاغ کی ایک تصویر میں دکھائی دے رہی ہیں، ان کے بنڈل بنائے گئے ہیں اس لیے یہ دیکھنا ناممکن ہے کہ اندر کیا ہے۔ [العالم]

شام کے زلزلہ متاثرین کے لیے ایرانی امداد کی کھیپیں، جو یہاں 7 فروری کو ایرانی ریاست کے زیرِ اختیار کام کرنے والے ذرائع ابلاغ کی ایک تصویر میں دکھائی دے رہی ہیں، ان کے بنڈل بنائے گئے ہیں اس لیے یہ دیکھنا ناممکن ہے کہ اندر کیا ہے۔ [العالم]

الشرق سینٹر فار ریجنل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کے محقق فتحی السید نے بتایا کہ یہ ساز و سامان دیر الزور اور دمشق میں چھپا دیا گیا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی قدس فورس (آئی آر جی سی- کیو ایف) نے شام کے ہوائی اڈوں کے ذریعے ہتھیار اور ملیشیا کے فوجی بھیجے ہوں۔

السید نے المشارق کو بتایا کہ آئی آر جی سی اور اس کے نائیبین طویل عرصے سے البو کمال کے مصافات میں، عراق کے ساتھ غیر قانونی سرحدی گزرگاہوں کو فوجی ساز و سامان لانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

زلزلے کے بعد، ایران نے بڑی دھوم دھام سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کے ٹرک بھیجے۔

السید نے بیان کیا کہ اس کے باوجود "ان فضائی اور زمینی کھیپوں کا حجم، جن کے بارے میں ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے وہ شام کو زلزلے کی امداد کے لیے پہنچائی ہیں، عام شہریوں میں تقسیم کی جانے والی امداد کی معمولی مقدار سے میل نہیں کھاتا"۔

انہوں نے کہا کہ "ایران نے جو کچھ کیا ہے وہ بین الاقوامی کنونشنز کی خلاف ورزی ہے اور یہ ان ہنگامی حالات کا استحصال ہے جو تجارتی رکاوٹوں اور پابندیوں کے دوران بھی امداد کی منتقلی کی اجازت دیتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ زلزلے کے بعد، ایران سے شام پہنچنے والی کھیپوں کو بہت کم جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ اس وقت تباہی سے متعلق امدادی کوششیں جاری تھیں۔

رائٹرز کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ اسمگلنگ کی کھلم کھلی کارروائیاں ہو رہی ہیں، جن میں ہتھیار اور فوجی سازوسامان، کھانے کی اشیاء یا تعمیراتی سامان کے نام سے نشان زدہ کنٹینرز میں بند ہیں۔

انہوں نے بیان کیا کہ آئی آر جی سی کو اپنے اس فضائی دفاعی نظام کے لیے سازوسامان کی فوری ضرورت تھی، جو فضائی حملوں سے متاثر ہوا ہے اور جس کے نتیجے میں بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔

اسمگلنگ کے خصوصی یونٹس

ایرانی امور کے محقق شیار ترکو نے المشارق کو بتایا کہ آئی آر جی سی کے پاس مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ (مینا) کے علاقے اور افریقہ میں دیگر جگہوں پر اسمگلنگ کی کارروائیوں کے لیے ضروری ڈھانچہ موجود ہے جس کا انتظام اعلیٰ افسران کرتے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئےکہ ان کا استعمال "کئی ممالک کو ہتھیار، فوجی سازوسامان اور میزائل" پہنچانے کے لیے کیا جاتا ہے، کہا کہ یہ "دنیا بھر میں اداروں کے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نیٹ ورک پر مشتمل ہے جو بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کا مالک بھی ہے اور انہیں کرایے پر بھی دیتا ہے۔"

ترکو نے کہا کہ یہ ڈھانچہ عام طور پر ہوائی جہازوں اور جہازوں کو، اپنی آخری منزل تک پہنچنے اور اپنا سامان اتارنے سے پہلے، متعدد ممالک سے گزرنے والے مختلف راستوں پر بھیجتا ہے جس کے باعث وہ توجہ اور پابندیوں سے بچ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاہم شام کے معاملے میں، آئی آر جی سی نے انسانی امداد کی آڑ میں فوجی ساز و سامان براہ راست ایران سے پہنچایا ہے۔

یونٹ 190، آئی آر جی سی - کیو ایف اسمگلنگ کا سب سے مشہور ادارہ ہے، اور اس میں 24 افراد شامل ہیں، جن میں بہنام شہریاری ٹریڈنگ کمپنی کے بہنام شہریاری بھی شامل ہیں، جو براہ راست آئی آر جی سی اور آئی آر جی سی- کیو ایف کے بانیوں سے منسلک رہے ہیں۔

ترکو نے کہا کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے بلیک لسٹ کیے گئے شہریاری دوسرے نام بھی استعمال کرتے ہیں، جن میں حجت اللہ نریمانی اور سید علی اکبر میرواکیلی شامل ہیں۔

اس کے پاس "دنیا بھر میں بہت سی فرنٹ کمپنیاں ہیں جو تیل، ممنوعہ اشیاء، ہتھیاروں اور رقم کی اسمگلنگ کر کے، آئی آر جی سی کو سرمایہ فراہم کرتی ہیں"۔

ترکو نے کہا کہ یہ نیٹ ورک مبینہ طور پر چین، روس اور بہت سے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ثالثوں اور سرکاری اہلکاروں سے منسلک ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہریاری کے لبنانی حزب اللہ کے عہدیداروں اور ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں کیونکہ وہ کئی دہائیوں سے ان کو ہتھیار اور فوجی ساز و سامان فراہم کرنے والا بنیادی فراہم کنندہ رہا ہے۔

اس نے افغانستان، آذربائیجان، عراق، سوڈان اور ترکی کو بھی اسلحہ فراہم کیا ہے۔

ترکو نے کہا کہ یونٹ 18000، جس کی قیادت حسن مہدوی کرتے ہیں، بھی اسمگلنگ کی کارروائیاں کرتا ہے اور مہدوی مبینہ طور پر کھیپوں کو منظم کرتا ہے اور ان کی روانگی کے اوقات، ان کی منزل کا اور آمد کے اوقات کا شیڈول بناتا ہے۔

یونٹ 18000 دیگر یونٹس کے ساتھ بھی تعاون کرتا ہے -- جیسے یونٹ 400 جس کا انتظام حمید عبداللہی کرتے ہیں -- اور یونٹ 4400، جو کہ حزب اللہ سے منسلک ایک ایسا لبنانی نیٹ ورک ہے جسے محمد کاسر چلاتے ہیں، جسے "حج فادی" بھی کہا جاتا ہے۔

ہوائی اڈے اور زمینی گزرگاہیں

شام سے تعلق رکھنے والے وکیل بشیر البسام نے المشارق کو بتایا کہ ایران دمشق اور حلب کے ہوائی اڈوں اور عراق کے ساتھ موجود شام کی زمینی گزرگاہوں پر کنٹرول قائم کرنے کا خواہاں ہے، خاص طور پر وہ جو کہ البو کمال کے آس پاس کے علاقوں میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران نے صوبہ اللاذقیہ کے کچھ حصوں پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام اقدامات کو "جان بوجھ کر شامی حکومت اور آئی آر جی سی- کیو ایف ملیشیاؤں کی حمایت میں ہتھیاروں، آلات اور اہلکاروں کی منتقلی میں سہولت فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کے تحت اٹھایا گیا ہے"۔

البسام نے کہا کہ آئی آر جی سی - کیو ایف کو ان ممکنہ انسانی یا مادی نقصانات سے کوئی سروکار نہیں ہے جو ہوائی اڈوں، گزرگاہوں اور سویلین بندرگاہوں کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے شام، عراق اور لبنان میں آئی آر جی سی سے وابستہ گروہوں کے نمائندوں کے ساتھ کہا کہ "اس کے تمام زمینی، ہوائی اور سمندری بندرگاہوں پر مستقل دفاتر موجود ہیں جو شام اور لبنان دونوں میں، ان کھیپوں کی آمد، وصولی اور تقسیم کو مربوط کرتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ اسلحے اور فوجی سازوسامان کو، تہران سے شام تک ایران ایئر، ماہان ایئر، کیسپین ایئرلائنز اور معراج ایئر لائنز کے ذریعے منتقل کیا جاتا ہے -- ایرانی فضائی کمپنیاں اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے بلیک لسٹ ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500