معیشت

بے روزگاری کے بحران نے متعدد چینی صنعتیں تباہ کر دیں

رؤویو

25 جولائی، 2020 کو ایک کمپنی کے لیے ایک بھرتی اہلکار ژینگژہو، صوبہ ہینان، چین میں کیریئر میلے کے دوران ملازمت کی تشہیر کا فلائر چسپاں کر رہا ہے۔ چین بے روزگاری کی ایک بے مثال لہر سے نبرد آزما ہے۔ [وانگ ژہاؤ/اے ایف پی]

25 جولائی، 2020 کو ایک کمپنی کے لیے ایک بھرتی اہلکار ژینگژہو، صوبہ ہینان، چین میں کیریئر میلے کے دوران ملازمت کی تشہیر کا فلائر چسپاں کر رہا ہے۔ چین بے روزگاری کی ایک بے مثال لہر سے نبرد آزما ہے۔ [وانگ ژہاؤ/اے ایف پی]

چین تمام شعبہ جات میں بے روزگاری کی ایک بے نظیر لہر سے نبرد آزما ہے، جو آئندہ برسوں کے لیے معاشی نتائج کے ایک تسلسل کے خدشہ کی حامل ہے۔

شنگھائی میں باشندے بلڈ بینکس کے باہر چند سو یوان کی معمولی سبسڈیز کے لیے قطار بنائے ہوئے ہیں۔

گؤانگژہو اور شینژین میں، کام تلاش کرنے میں ناکام رہنے والے تارکِ وطن کارکنان گلیوں میں، عمارتوں کے اولتیوں کے نیچے، پیدل چلنے والوں کے لیے بنائی گئی سرنگوں اور ریل سٹیشنز میں سو رہے ہیں۔

ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم، دُویین پر "بے روزگاری کی حالت میں کہاں سوئیں" کے عنوان سے ویڈیوز کا ایک سلسلہ وائرل ہو گیا ہے۔ اس ویڈیو کو کروڑوں ویوز ملے ہیں، جس سے چین میں بطورِ خاص نوجوانوں میں ہر سو پھیلا بے روزگاری کا بحران نمایاں ہوتا ہے۔

26 اگست کو ملازمتوں کے متلاشی بیجنگ میں ایک ملازمت میلے میں شریک ہیں۔ چین کی سست روی کی شکار معیشت نے دسیوں لاکھوں نوجوانوں کو ملازمتوں کی تیزی سے ڈوبتی کشتی کے لیے مدِ مقابل کر دیا ہے، جنہیں ایک نہایت غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔ [جاڈے گاؤ/اے ایف پی]

26 اگست کو ملازمتوں کے متلاشی بیجنگ میں ایک ملازمت میلے میں شریک ہیں۔ چین کی سست روی کی شکار معیشت نے دسیوں لاکھوں نوجوانوں کو ملازمتوں کی تیزی سے ڈوبتی کشتی کے لیے مدِ مقابل کر دیا ہے، جنہیں ایک نہایت غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔ [جاڈے گاؤ/اے ایف پی]

رائیٹرز نے 27 فروری کو خبر دی کہ سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ چین کی شہری ملازمتوں میں 8.4 ملین کی کمی آنے کے بعد وہ 2022 کے آخر تک 459.31 ملین رہ گئی ہیں، یہ 1962 کے بعد سے پہلی کمی ہے۔

قومی ادارۂ شماریات کی جانب سے جاری کی گئی شہری بے روزگاری کی شرح 5.6 فیصد تھی، جبکہ چین میں شہری بے روزگار آبادی 25.7 ملین تک پہنچ گئی۔

شہری علاقوں میں بے روزگار نوجوانوں کی شرح غیر متناسب طور پر بلند ہے، جولائی 2022 میں یہ عروج پر پہنچ گئی، اور 15 سے 24 برس کے درمیان کی شہری نوجوان آبادی کا پانچواں حصہ بے کار تھا۔

کالج کے طلبہ کے لیے "فارغ التحصیل ہو کر بے روزگار" ہونے کی خبریں چینی میڈیا میں عام ہیں، اور توقع ہے کہ رواں برس متعدد صنعتوں میں مزدوروں کی منڈی کے لیے نہایت مقابلے کا سال ہو گا۔

وسیع بے روزگاری

شنگھائی میں فرانسیسی شراب درآمد کرنے والے ڈِنگ زیکون نے کہا کہ متعدد وجوہات کی بنا پر مزدوروں کی منڈی کو کثیر دباؤ کا سامنا ہے۔

"غیر ملکی آرڈرز میں نمایاں کمی آئی ہے، اور برآمدی تاجروں کو متوقع بحالی نہ نظر آ سکی۔ کھپت کی داخلی منڈی تاحال کمزور ہے، اور یہاں تک کہ چند غیر مطمئن ملازمین رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو گئے۔"

ڈنگ کے ملازمین میں سے ایک، جس کے پاس پوسٹ گریجوایٹ سند ہے، نے گزشتہ دسمبر میں اس لیے ملازمت ترک کی کہ وہ مارچ میں واپس لوٹ آئے گا۔

"اب اس اسامی کے لیے 30 سے زائد [امّیدوار] مقابلہ میں ہیں، ان میں ایسے بھی شامل ہیں جن کے پاس اس سے زیادہ تجربہ ہے۔ میں اب بھی ہچکچا رہا ہوں کہ اسے واپس کام پر آنے دوں یا نہیں۔"

شنگھائی میں تشہیری پیشکاری میں کام کرنے والی کوکو چین نے کہا کہ چند ماہ قبل ایک درمیانے درجے کی اشتہارساز کمپنی سے مستعفی ہونے کے بعد اسے اب تک کوئی ملازمت نہیں ملی۔

چین نے کہا، "میرا ریزیومے نسبتاً مسابقتی ہے۔ میں نے چین میں معروف ترین تشہیری منصوبوں میں سے چند ایک پر کام کیا ہے۔ تاہم ملازمت تلاش کرنا اس قدر آسان نہیں جتنا مجھے توقع تھی، اور مجھے اس کی توقع نہ تھی۔" اس نے مزید کہا کہ اس نے ذاتی تشہیری کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

چین میں بھرتی کی سب سے بڑی ویب سائیٹس میں سے ایک، ژاؤپن ڈاٹ کام نے مارچ میں تقریباً 50،000 سفید پوشوں کا سروے کیا، جس میں پتا چلا کہ ایک برس قبل کے 39.8 فیصد کے مقابلہ میں رواں برس 47.3 فیصد رائے دہندگان کو خدشہ تھا کہ وہ رواں برس اپنی ملازمتیں کھو دیں گے۔

2022 میں 48.4 فیصد کے مقابلہ میں تقریباً 60 فیصد رائے دہندگان نے اندراج کیا کہ ان کے اعتماد کو متاثر کرنے والا مرکزی عنصر "غیر یقینی معاشی ماحول" ہے۔

ٹیک کمپنیوں میں برخاستگیاں

ہائی ٹیک صنعت میں جو قابلِ رشک ملازمتیں ہوا کرتی تھیں، اب انہیں "ہائی رسک ملازمتیں" تصور کیا جاتا ہے۔

2022 میں علی بابا نے تقریباً 20,000 کارکنان کو برخاست کیا۔ اس بڑی ٹیکنالوجی کمپنی کی حالیہ تنظیمِ نو نے متعدد ملازمین کو پریشان کر رکھا ہے کہ مزید برخاستگیاں ہوں گی۔

برخاستگیوں نے ایشیا کی سب سے بڑی انٹرنیٹ کمپنی ٹین سینٹ کے ملازمین کو بھی کئی ماہ سے خوفزدہ کر رکھا ہے۔

میڈیا کی اس خبر کے بعد، کہ چین کی یہ ٹیک کمپنی عملہ کے 300 ارکان تک کو برخاست کرنے جا رہی ہے، اس چینی ٹیک جائنٹ نے فروری میں رائیٹرز کو بتایا کہ یہ کچھ ذاتی ایڈجسٹمنٹس کررہی ہے۔

چار ذرائع نے نومبر میں رائیٹرز کو بتایا کہ ان افواہوں کے بعد برخاستگیوں کی ایک لہر نے ٹین سینٹ کے ویڈیو سٹریمنگ، گیمنگ اور کلاؤڈ کاروباروں کو ہدف بنایا۔

چین سے باہر رہائش پذیر ایک سینیئر کمنٹیٹر وانگ ژیان نے کہا کہ معاشی مندیوں نے ٹیک کمپنیوں کے لیے ٹریفک کو مونیٹائز کرنا بہت زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔

وانگ نے کہا، "ٹین سینٹ اور میٹوان جیسی کمپنیوں کے پاس کافی ٹریفک ہے، اور ان کا کاروباری ماڈل ٹریفک کو نقدی میں تبدیل کرنا ہے، جسے ٹریفک مانیٹائزیشن کہا جاتا ہے۔ جب معیشت مندی کا شکار ہوتی ہے، ٹریفک مانیٹائزیشن بہت مشکل ہو جاتی ہے کیوںکہ [صارفین] کے پاس قوتِ خرید نہیں ہوتی۔"

انہوں نے مزید کہا، "چین میں سیاسی ماحول روز بروز غیر دوستانہ ہوتا جا رہا ہے، اور انٹرنیٹ کمپنیوں کے لیے پھیلنے کی گنجائش سکڑ کر کم از کم ہو گئی ہے۔"

ان وجوہات کی بنا پر، "انٹرنیٹ کمپنیوں میں خطیر نتخواہوں کی ملازمتیں ہائی رسک اسامیوں میں بدل چکی ہیں۔"

تارکِ وطن کارکنان کی تگ ودو

ملک میں ملازمتوں کی برسرِ پیکار منڈی کی وجہ سے چین کے تارکِ وطن کارکنان، بطورِ خاص دیہی خانگی اندراج کے حامل، سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

یہ کارکنان بے روزگاری کی شہری شرح میں شامل نہیں ہیں، لیکن بہار کے میکہ کے اختتام سے اب تک شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ملازمتیں تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

چین میں تقریباً 300 ملین تارکِ وطن کارکنان ہیں، جن میں سے متعدد اب بے روزگار ہیں۔

مارچ کے اوائل میں تارکِ وطن کارکنان کی ایک بڑی تعداد گوانگژو جنوبی سٹیشن اور ڈونگگوان مشرقی سٹیشن پر جمع دکھائی دی، جنہیں کام نہیں ملا اور وہ گھر واپس لوٹنے پر مجبور تھے۔

شین ژین لونگہوا بس سٹیشن کے قریب گلییوں میں، برخاست شدہ تارکِ وطن کارکنان اپنے سامان کے ہمراہ زمین پر بیٹھے دیکھے گئے، اور چند تو پلوں کے نیچے یا عوامی پارکس میں سو رہے تھے۔

آن لائن شیئر کی جانے والی ویڈیوز سے پتا چلتا ہے کہ بے روزگار باشندے شین ژین میں عمارتوں کی اولتیوں کے نیچے باہر کیمپنگ کر رہے ہیں، جبکہ دیگر طریقے شیئر کر رہے ہیں کہ کیسے مفت رہائش اور خوراک تلاش کی جائے، یا کیسے ہوٹلز میں مفت نہایا جائے۔

'لچکدار ملازمت'

ملازمت کی اس غیر یقینی منڈی میں چند بے روزگار نوجوان "لچکدار ملازمت" کی جانب پھر گئے۔

فروری 2022 میں رپورٹ کیے جانے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، تقریباً 200 ملین چینی "لچکدار ملازمت" کی کیفیت میں ہیں۔

ایک سنگاپور اساسی ای میگزین تھنک چائنہ کے مطابق، جب یہ رپورٹ سامنے آئی تو "چین کی لچک دار ملازمتیں 200 ملین تک پہنچ گئیں" ویبو پر سب سے زیادہ تلاش کیے جانے والے فقروں میں سے ایک بن گیا۔

ریاستی میڈیا "لچکدار ملازمت" کو مثبت انداز میں بیان کرتا ہے، تاہم متعدد سوشل میڈیا صارفین سوچ رہے ہیں کہ آیا یہ نسبتاً نیا تصور بے روزگاری ہی کے لیے ایک متبادل لفظ ہے۔

تھنک چائنہ نے کہا کہ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے، "کتنے لوگ 'کام نہ کرنے والی' قابلِ رشک زندگی گزار رہے ہیں اور کتنے تنخواہ ملنے سے تنخواہ ملنے تک گزارہ کر رہے ہیں؟"

ویبو صارفین نے بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا:

"یہ بس گزارہ کرنے والی زندگی ہے، اور پھر بھی اسے کتنا متاثر کن ظاہر کر رہے ہیں!"

"یہ بے روزگار ہونے اور چھوٹی ملازمتیں کرنے کو کس قدر فرحت بخش اور غیر روایتی ظاہر کر رہے ہیں۔"

گلوبل ٹائمز کے سابق مدیرِ اعلیٰ ہو ژیجن نے کہا، "200 ملین کے عدد کا ایک کامیابی کے طور پر ڈھنڈورا نہیں پیٹا جا سکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ مایوسی اور سختی یقینی طور پر دلکشی اور خوشی پر حاوی ہو گی۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500