سفارتکاری

سعودیہ-ایران کشیدگی میں کمی کی بنیاد عراق، عمان نے رکھی (نہ کہ چین نے)

فارس العمران

10 مارچ کو بیجنگ میں، چین کے دفترِ خارجہ کے مرکزی کمیشن کے ڈائریکٹر وانگ یی، ایران کی سپریم قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی اور سعودی قومی سلامتی کے مشیر مصد بن محمد العیبان کے ساتھ تصویر بنواتے ہوئے۔ [چینی وزارتِ خارجہ]

10 مارچ کو بیجنگ میں، چین کے دفترِ خارجہ کے مرکزی کمیشن کے ڈائریکٹر وانگ یی، ایران کی سپریم قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی اور سعودی قومی سلامتی کے مشیر مصد بن محمد العیبان کے ساتھ تصویر بنواتے ہوئے۔ [چینی وزارتِ خارجہ]

دیرینہ حریفوں سعودی عرب اور ایران کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے میں چین کی حالیہ کامیابی، جسے وہ سفارتی بغاوت قرار دے رہا ہے، درحقیقت عراق اور عمان کی قیادت میں برسوں کی خاموش بات چیت اور سفارت کاری کا پھل ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے 12 مارچ کے تجزیے میں لکھا، "چین نے محض جھگڑا کرنے والے فریقین کو اچانک ساتھ نہیں لیا اور نہ ہی ایک دوسرے کو اکٹھا کیا"۔

المانیٹر نے ہفتہ (18 مارچ) کو خبر دی کہ درحقیقت یہ عراق ہی تھا جس نے سنہ 2019 میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا آغاز کیا تاکہ سنہ 2016 میں ہونے والی تعلقات کی خرابی کی اصلاح کی جا سکے، "زیادہ تر دونوں فریقین کے درمیان پیغامات رسانی کرتے ہوئے"۔

سنہ 2020 اور 2022 کے درمیان، عراق نے بغداد میں مذاکرات کے پانچ دور منعقد کیے اور ان کی میزبانی کی۔

بغداد کے رہائشی منیم محمد نے المشارق کو بتایا کہ "یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ چین جس چیز کو اپنی سفارت کاری کا ایک پھل اور کامیابی سمجھتا ہے، اس میں عراق کے کردار کو تسلیم کرنے میں ناکام رہا ہے"۔

انہوں نے کہا، "عراق کی ثالثی ان تنازعات کو ختم کرنے کی حقیقی خواہش پر مبنی تھی جو اس کی سلامتی پر منفی انداز سے اثر انداز ہو رہے تھے، جبکہ چین کا مقصد اس کے وسائل پر ہاتھ ڈال کر خطے کو نگلنا ہے"۔

دریں اثناء بغداد کے رہائشی حسن الدُلیمی نے چین پر الزام لگایا کہ وہ کشیدگی میں کمی لانے میں عراقی کردار کو پس پشت ڈال رہا ہے۔

چین سیاسی تسلط کا متلاشی

عراقی تجزیہ کاروں نے المشارق کو بتایا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی ثالثی مشرق وسطیٰ پر "غلبہ" پانے اور اس کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کی طویل المعیاد پالیسی کا حصہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چین نے خود کو ایک غیر جانبدار ثالث کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے کہا کہ تمام فریقین کے ساتھ اپنے مثبت تعلقات کی وجہ سے وہ خطے میں دیرپا امن کے لیے اقدامات کی قیادت کر سکتا ہے۔

عراقی سیاسی تجزیہ کار طارق الشمری نے المشارق کو بتایا کہ حقیقت میں، البتہ، وہ اپنے لیے اس طرح مداخلت کرنے کی جگہ پیدا کرنا چاہتا ہے جو صرف اس کے اپنے معاشی مفادات کی حمایت کرتی ہو۔

انہوں نے کہا کہ چین مشرقِ وسطیٰ میں ادا کرنے کے لیے "سیاسی کردار" کی تلاش میں ہے تاکہ خطے کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں وسیع راستے کھولے جائیں جو تجارتی تبادلے اور سرمایہ کاری تک محدود نہ ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے عراق کی محنت کا سہرا اپنے سر باندھ کر، چین کا مقصد خود کو ایک "بااثر بین الاقوامی کھلاڑی" کے طور پر پیش کرنا اور خطے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اپنی تزویراتی پالیسی کو آگے بڑھانا ہے۔

الشمری نے کہا کہ چینی حکام کے خطے کے حالیہ شدید دورے اور دسمبر میں عرب اور خلیجی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی مشترکہ سربراہی ملاقاتیں سیاسی سرگرمیوں کا حصہ ہیں جس کا مقصد بیجنگ کے اثر و رسوخ کو مضبوط کرنا ہے۔

چینی مفادات کا تحفظ

الشمری نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے تعلقات کو متنوع بنا کر، چین توانائی کے ان ذرائع پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پُرامید ہے جن کی اسے اپنی معیشت کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت چین ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔

ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی رابرٹ میلے نے 23 جنوری کو بلومبرگ ٹی وی کو بتایا کہ ایران کی غیر قانونی برآمدات کی اصل منزل چین ہے۔

تجزیہ کاروں نے کہا کہ چین سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں سے تیل کی درآمدات پر بھی بڑی حد تک انحصار کرتا ہے، انہوں نے توجہ دلائی کہ علاقائی استحکام چین کے مفادات کی ضمانت دیتا ہے اور اسے اپنی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کو آگے بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بی آر آئی کے ذریعے، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے، چین دنیا کی مضبوط ترین معیشت بننے کا خواہش مند ہے۔

بی آر آئی کے عملی ڈھانچے کے اندر، چین سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے کے نیٹ ورکس قائم کرنے اور مشرقِ وسطیٰ میں اربوں خرچ کر رہا ہے جو خطے کے وسائل کو ختم کرنے اور قرضوں میں جکڑتے ہوئے اس کی عالمی تجارت کو بڑھا دے گا۔

عرب سینٹر واشنگٹن ڈی سی (اے سی ڈبلیو)کی جنوری 2022 کی رپورٹ کے مطابق، "[ بی آر آئی کی پیروی میں] بیجنگ کی رفتار اور عزم مشرقِ وسطیٰ میں سب سے زیادہ واضح ہے"۔

چین نے "بی آر آئی سے متعلقہ منصوبوں کی سرمایہ کاری میں مشرق وسطیٰ میں کم از کم 123 بلین ڈالر ڈالے ہیں"۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، "اگرچہ چین کی مشرقِ وسطیٰ میں شمولیت کی حکمتِ عملی کو معمولی قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن درحقیقت یہ مشرقِ وسطیٰ میں چین کے فوجی اور سفارتی پروفائل کی توسیع کے ساتھ ساتھ چلی ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500